دیوان غالب}

دیوان غالب

مرزا اسد اللہ خان غالب
غالب کے اشعار کا مجموعہ
  1. 1 الف
  2. 1.1 نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
  3. 1.2 جنوں گرم انتظار و نالہ بیتابی کمند آیا
  4. 1.3 عالم جہاں بعرضِ بساطِ وجود تھا
  5. 1.4 کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا
  6. 1.5 عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا
  7. 1.6 دل میرا سوز نہاں سے بے محابا جل گیا
  8. 1.7 شوق، ہر رنگ رقیبِ سر و ساماں نکلا
  9. 1.8 دھمکی میں مر گیا، جو نہ بابِ نبرد تھا
  10. 1.9 شمار سبحہ، "مرغوبِ بتِ مشکل" پسند آیا
  11. 1.10 دہر میں نقشِ وفا وجہ تسلی نہ ہوا
  12. 1.11 ستایش گر ہے زاہد، اس قدر جس باغِ رضواں کا
  13. 1.12 نہ ہو گا "یک بیاباں ماندگی" سے ذوق کم میرا
  14. 1.13 سراپا رہنِ عشق و ناگزیرِ الفتِ ہستی
  15. 1.14 محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا
  16. 1.15 بزمِ شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا
  17. 1.16 شب کہ ذوقِ گفتگو سے تیری دل بیتاب تھا
  18. 1.17 نالۂ دل میں شب اندازِ اثر نایاب تھا
  19. 1.18 کس کا جنونِ دید تمنّا شکار تھا؟
  20. 1.19 بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
  21. 1.20 شب خمارِ شوقِ ساقی رستخیز اندازہ تھا
  22. 1.21 دوست غمخواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا
  23. 1.22 یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
  24. 1.23 ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا
  25. 1.24 درخورِ قہر و غضب جب کوئی ہم سا نہ ہوا
  26. 1.25 اسدؔ ہم وہ جنوں جولاں گدائے بے سر و پا ہیں
  27. 1.26 پئے نذرِ کرم تحفہ ہے 'شرمِ نا رسائی' کا
  28. 1.27 گر نہ "اندوہِ شبِ فرقت" بیاں ہو جائے گا
  29. 1.28 درد مِنّت کشِ دوا نہ ہوا
  30. 1.29 گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگیِ جا کا
  31. 1.30 قطرۂ مے بس کہ حیرت سے نفَس پرور ہوا
  32. 1.31 جب بہ تقریبِ سفر یار نے محمل باندھا
  33. 1.32 میں اور بزمِ مے سے یوں تشنہ کام آؤں
  34. 1.33 گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا
  35. 1.34 نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
  36. 1.35 یک ذرۂ زمیں نہیں بے کار باغ کا
  37. 1.36 وہ میری چینِ جبیں سے غمِ پنہاں سمجھا
  38. 1.37 پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا
  39. 1.38 ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا
  40. 1.39 لبِ خشک در تشنگی، مردگاں کا
  41. 1.40 تو دوست کسی کا بھی، ستمگر! نہ ہوا تھا
  42. 1.41 شب کہ وہ مجلس فروزِ خلوتِ ناموس تھا
  43. 1.42 آئینہ دیکھ، اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
  44. 1.43 ضعفِ جنوں کو وقتِ تپش در بھی دور تھا
  45. 1.44 فنا کو عشق ہے بے مقصداں حیرت پرستاراں
  46. 1.45 عرضِ نیازِ عشق کے قابل نہیں رہا
  47. 1.46 خود پرستی سے رہے باہم دِگر نا آشنا
  48. 1.47 ذکر اس پری وش کا، اور پھر بیاں اپنا
  49. 1.48 طاؤس در رکاب ہے ہر ذرّہ آہ کا
  50. 1.49 غافل بہ وہمِ ناز خود آرا ہے ورنہ یاں
  51. 1.50 جور سے باز آئے پر باز آئیں کیا
  52. 1.51 بہارِ رنگِ خونِ دل ہے ساماں اشک باری کا
  53. 1.52 عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
  54. 1.53 شکوۂ یاراں غبارِ دل میں پنہاں کر دیا
  55. 1.54 پھر وہ سوئے چمن آتا ہے خدا خیر کرے
  56. 1.55 اسدؔ! یہ عجز و بے سامانیِ فرعون توَام ہے
  57. 1.56 بس کہ فعّالِ ما یرید ہے آج
  58. 1.57 بہ رہنِ شرم ہے با وصفِ شوخی اہتمام اس کا
  59. 1.58 عیب کا دریافت کرنا، ہے ہنر مندی اسدؔ
  60. 1.59 شب کہ ذوقِ گفتگو سے تیرے، دل بے تاب تھا
  61. 1.60 دود کو آج اس کے ماتم میں سیہ پوشی ہوئی
  62. 2 ب
  63. 2.1 پھر ہوا وقت کہ ہو بال کُشا موجِ شراب
  64. 3 ت
  65. 3.1 افسوس کہ دنداں کا کیا رزق فلک نے
  66. 3.2 رہا گر کوئی تا قیامت سلامت
  67. 3.3 آمدِ خط سے ہوا ہے سرد جو بازارِ دوست
  68. 3.4 مند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں غالبؔ
  69. 4 ج
  70. 4.1 گلشن میں بند وبست بہ رنگِ دگر ہے آج
  71. 4.2 معزولیِ تپش ہوئی افرازِ انتظار
  72. 4.3 لو ہم مریضِ عشق کے بیمار دار ہیں
  73. 5 چ
  74. 5.1 نفَس نہ انجمنِ آرزو سے باہر کھینچ
  75. 6 د
  76. 6.1 حسن غمزے کی کشاکش سے چھٹا میرے بعد
  77. 6.2 ہلاکِ بے خبری نغمۂ وجود و عدم
  78. 6.3 تجھ سے مقابلے کی کسے تاب ہے ولے
  79. 7 ر
  80. 7.1 بلا سے ہیں جو یہ پیشِ نظر در و دیوار
  81. 7.2 گھر جب بنا لیا ترے در پر کہے بغیر
  82. 7.3 کیوں جل گیا نہ، تابِ رخِ یار دیکھ کر
  83. 7.4 لرزتا ہے مرا دل زحمتِ مہرِ درخشاں پر
  84. 7.5 ہے بس کہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور
  85. 7.6 صفائے حیرت آئینہ ہے سامانِ زنگ آخر
  86. 7.7 فسونِ یک دلی ہے لذّتِ بیداد دشمن پر
  87. 7.8 ستم کش مصلحت سے ہوں کہ خوباں تجھ پہ عاشق ہیں
  88. 7.9 لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دِن اور
  89. 8 ز
  90. 8.1 حریفِ مطلبِ مشکل نہیں فسونِ نیاز
  91. 8.2 بے گانۂ وفا ہے ہوائے چمن ہنوز
  92. 8.3 کیوں کر اس بت سے رکھوں جان عزیز!
  93. 8.4 وسعتِ سعیِ کرم دیکھ کہ سر تا سرِ خاک
  94. 8.5 گل کھلے غنچے چٹکنے لگے اور صبح ہوئی
  95. 8.6 نہ گل نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز
  96. 9 س
  97. 9.1 کب فقیروں کو رسائی بُتِ مے خوار کے پاس
  98. 9.2 اے اسدؔ ہم خود اسیرِ رنگ و بوئے باغ ہیں
  99. 10 ش
  100. 10.1 نہ لیوے گر خسِ جَوہر طراوت سبزۂ خط سے
  101. 11 ع
  102. 11.1 جادۂ رہ خُور کو وقتِ شام ہے تارِ شعاع
  103. 11.2 رُخِ نگار سے ہے
  104. 12 ف
  105. 12.1 بیمِ رقیب سے نہیں کرتے وداعِ ہوش
  106. 13 ک
  107. 13.1 زخم پر چھڑکیں کہاں طفلانِ بے پروا نمک
  108. 13.2 آہ کو چاہیے اِک عُمر اثر ہونے تک
  109. 13.3 دیکھنے میں ہیں گرچہ دو، پر ہیں یہ دونوں یار ایک
  110. 14 گ
  111. 14.1 گر تُجھ کو ہے یقینِ اجابت، دُعا نہ مانگ
  112. 15 ل
  113. 15.1 ہے کس قدر ہلاکِ فریبِ وفائے گُل
  114. 15.2 غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش از یک نفس
  115. 15.3 بہ نالہ دل بستگی فراہم کر
  116. 15.4 مجھ کو دیارِ غیر میں مارا، وطن سے دور
  117. 15.5 از آنجا کہ حسرتِ کشِ یار ہیں ہم
  118. 16 م
  119. 17 ن
  120. 17.1 لوں وام بختِ خفتہ سے یک خوابِ خوش ولے
  121. 17.2 وہ فراق اور وہ وصال کہاں
  122. 17.3 کی وفا ہم سے تو غیر اِس کو جفا کہتے ہیں
  123. 17.4 آبرو کیا خاک اُس گُل کی۔ کہ گلشن میں نہیں
  124. 17.5 عہدے سے مدحِ ‌ناز کے باہر نہ آ سکا
  125. 17.6 مہرباں ہو کے بلا لو مجھے، چاہو جس وقت
  126. 17.7 ہم سے کھل جاؤ بوقتِ مے پرستی ایک دن
  127. 17.8 ہم پر جفا سے ترکِ وفا کا گماں نہیں
  128. 17.9 مانع دشت نوردی کوئی تدبیر نہیں
  129. 17.10 مت مردُمکِ دیدہ میں سمجھو یہ نگاہیں
  130. 17.11 برشکالِ گریۂ عاشق ہے دیکھا چاہیے
  131. 17.12 عشق تاثیر سے نومید نہیں
  132. 17.13 جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
  133. 17.14 ملتی ہے خُوئے یار سے نار التہاب میں
  134. 17.15 کل کے لیے کر آج نہ خسّت شراب میں
  135. 17.16 حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں
  136. 17.17 ذکر میرا بہ بدی بھی، اُسے منظور نہیں
  137. 17.18 نالہ جُز حسنِ طلب، اے ستم ایجاد نہیں
  138. 17.19 دونوں جہان دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا
  139. 17.20 ہو گئی ہے غیر کی شیریں بیانی کارگر
  140. 17.21 قیامت ہے کہ سن لیلیٰ کا دشتِ قیس میں آنا
  141. 17.22 دل لگا کر لگ گیا اُن کو بھی تنہا بیٹھنا
  142. 17.23 یہ ہم جو ہجر میں دیوار و در کو دیکھتے ہیں
  143. 17.24 نہیں کہ مجھ کو قیامت کا اعتقاد نہیں
  144. 17.25 تیرے توسن کو صبا باندھتے ہیں
  145. 17.26 زمانہ سخت کم آزار ہے، بہ جانِ اسدؔ
  146. 17.27 دائم پڑا ہُوا ترے در پر نہیں ہُوں میں
  147. 17.28 سب کہاں؟ کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
  148. 17.29 دیوانگی سے دوش پہ زنّار بھی نہیں
  149. 17.30 فزوں کی دوستوں نے حرصِ قاتل ذوقِ کشتن میں
  150. 17.31 مزے جہان کے اپنی نظر میں خاک نہیں
  151. 17.32 دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں؟
  152. 17.33 غنچۂ ناشگفتہ کو دور سے مت دکھا، کہ یُوں
  153. 17.34 ہم بے خودیِ عشق میں کر لیتے ہیں سجدے
  154. 17.35 اپنا احوالِ دلِ زار کہوں یا نہ کہوں
  155. 17.36 ممکن نہیں کہ بھول کے بھی آرمیدہ ہوں
  156. 17.37 جس دن سے کہ ہم خستہ گرفتارِ بلا ہیں
  157. 17.38 مے کشی کو نہ سمجھ بے حاصل
  158. 17.39 دھوتا ہوں جب میں پینے کو اس سیم تن کے پاؤں
  159. 18 و
  160. 18.1 حسد سے دل اگر افسردہ ہے، گرمِ تماشا ہو
  161. 18.2 کعبے میں جا رہا، تو نہ دو طعنہ، کیا کہیں
  162. 18.3 وارستہ اس سے ہیں کہ محبّت ہی کیوں نہ ہو
  163. 18.4 ابر روتا ہے کہ بزمِ طرب آمادہ کرو
  164. 18.5 ملی نہ وسعتِ جولان یک جنون ہم کو
  165. 18.6 قفس میں ہوں گر اچّھا بھی نہ جانیں میرے شیون کو
  166. 18.7 واں اس کو ہولِ دل ہے تو یاں میں ہوں شرمسار
  167. 18.8 واں پہنچ کر جو غش آتا پئے ہم ہے ہم کو
  168. 18.9 تم جانو، تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو
  169. 18.10 گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیوں کر ہو
  170. 18.11 کسی کو دے کے دل کوئی نوا سنجِ فغاں کیوں ہو
  171. 18.12 رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
  172. 18.13 بھولے سے کاش وہ ادھر آئیں تو شام ہو
  173. 19 ہ
  174. 19.1 شبِ وصال میں مونس گیا ہے بَن تکیہ
  175. 19.2 از مہر تا بہ ذرّہ دل و دل ہے آئینہ
  176. 19.3 ہے سبزہ زار ہر در و دیوارِ غم کدہ
  177. 19.4 نہ پوچھ حال اس انداز، اس عتاب کے ساتھ
  178. 19.5 ہندوستان سایۂ گل پائے تخت تھا
  179. 20 ی
  180. 20.1 صد جلوہ رو بہ رو ہے جو مژگاں اٹھائیے
  181. 20.2 وہ بات چاہتے ہو کہ جو بات چاہیے
  182. 20.3 بساطِ عجز میں تھا ایک دل یک قطرہ خوں وہ بھی
  183. 20.4 ہے بزمِ بتاں میں سخن آزردہ لبوں سے
  184. 20.5 تا ہم کو شکایت کی بھی باقی نہ رہے جا
  185. 20.6 گھر میں تھا کیا کہ ترا غم اسے غارت کرتا
  186. 20.7 غمِ دنیا سے گر پائی بھی فرصت سر اٹھانے کی
  187. 20.8 حاصل سے ہاتھ دھو بیٹھ اے آرزو خرامی
  188. 20.9 کیا تنگ ہم ستم زدگاں کا جہان ہے
  189. 20.10 درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے
  190. 20.11 سر گشتگی میں عالمِ ہستی سے یاس ہے
  191. 20.12 گر خامشی سے فائدہ اخفائے حال ہے
  192. 20.13 تم اپنے شکوے کی باتیں نہ کھود کھود کے پوچھو
  193. 20.14 بسکہ حیرت سے ز پا افتادۂ زنہار ہے
  194. 20.15 پینس میں گزرتے ہیں جو کوچے سے وہ میرے
  195. 20.16 یہ بزمِ مے پرستی، حسرتِ تکلیف بے جا ہے
  196. 20.17 رحم کر ظالم کہ کیا بودِ چراغِ کشتہ ہے
  197. 20.18 چشمِ خوباں خامشی میں بھی نوا پرداز ہے
  198. 20.19 عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی
  199. 20.20 ہے آرمیدگی میں نکوہش بجا مجھے
  200. 20.21 اور تو رکھنے کو ہم دہر میں کیا رکھتے تھے
  201. 20.22 اس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کیے
  202. 20.23 رفتارِ عمر قطعِ رہ اضطراب ہے
  203. 20.24 دیکھنا قسمت کہ آپ اپنے پہ رشک آ جائے ہے
  204. 20.25 گرمِ فریاد رکھا شکلِ نہالی نے مجھے
  205. 20.26 کار گاہ ہستی میں لالہ داغ ساماں ہے
  206. 20.27 اگ رہا ہے در و دیوار سے سبزہ غالبؔ
  207. 20.28 سادگی پر اس کی، مر جانے کی حسرت دل میں ہے
  208. 20.29 دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
  209. 20.30 تسکیں کو ہم نہ روئیں جو ذوقِ نظر ملے
  210. 20.31 کوئی دن گر زندگانی اور ہے
  211. 20.32 کوئی امّید بر نہیں آتی
  212. 20.33 دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے؟
  213. 20.34 کہتے تو ہو تم سب کہ بتِ غالیہ مو آئے
  214. 20.35 پھر کچھ اک دل کو بیقراری ہے
  215. 20.36 جنوں تہمت کشِ تسکیں نہ ہو گر شادمانی کی
  216. 20.37 نِکوہِش ہے سزا فریادیِ بیدادِ دِلبر کی
  217. 20.38 بے اعتدالیوں سے سبُک سب میں ہم ہوئے
  218. 20.39 جو نہ نقدِ داغِ دل کی کرے شعلہ پاسبانی
  219. 20.40 ظلمت کدے میں میرے شبِ غم کا جوش ہے
  220. 20.41 آ، کہ مری جان کو قرار نہیں ہے
  221. 20.42 میں انہیں چھیڑوں اور کچھ نہ کہیں
  222. 20.43 ہجومِ غم سے یاں تک سر نگونی مجھ کو حاصل ہے
  223. 20.44 پا بہ دامن ہو رہا ہوں بسکہ میں صحرا نورد
  224. 20.45 جس بزم میں تو ناز سے گفتار میں آوے
  225. 20.46 حسنِ مہ گرچہ بہ ہنگامِ کمال اچّھا ہے
  226. 20.47 نہ ہوئی گر مرے مرنے سے تسلّی نہ سہی
  227. 20.48 عجب نشاط سے جلاّد کے چلے ہیں ہم آگے
  228. 20.49 شکوے کے نام سے بے مہر خفا ہوتا ہے
  229. 20.50 ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
  230. 20.51 غیر لیں محفل میں بوسے جام کے
  231. 20.52 پھر اس انداز سے بہار آئی
  232. 20.53 تغافل دوست ہوں میرا دماغِ عجز عالی ہے
  233. 20.54 کب وہ سنتا ہے کہانی میری
  234. 20.55 نقشِ نازِ بتِ طنّاز بہ آغوشِ رقیب
  235. 20.56 گلشن کو تری صحبت از بسکہ خوش آئی ہے
  236. 20.57 جس زخم کی ہو سکتی ہو تدبیر رفو کی
  237. 20.58 یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے
  238. 20.59 ہے وصل ہجر عالمِ تمکین و ضبط میں
  239. 20.60 چاہیے اچھّوں کو، جتنا چاہیے
  240. 20.61 ہر قدم دوریِ منزل ہے نمایاں مجھ سے
  241. 20.62 نکتہ چیں ہے، غمِ دل اُس کو سُنائے نہ بنے
  242. 20.63 چاک کی خواہش، اگر وحشت بہ عُریانی کرے
  243. 20.64 وہ آ کے، خواب میں، تسکینِ اضطراب تو دے
  244. 20.65 تپِش سے میری، وقفِ کش مکش، ہر تارِ بستر ہے
  245. 20.66 خطر ہے رشتۂ اُلفت رگِ گردن نہ ہو جائے
  246. 20.67 فریاد کی کوئی لَے نہیں ہے
  247. 20.68 نہ پُوچھ نسخۂ مرہم جراحتِ دل کا
  248. 20.69 ہم رشک کو اپنے بھی گوارا نہیں کرتے
  249. 20.70 شفق بدعوۂ عاشق گواہِ رنگیں ہے
  250. 20.71 کیوں نہ ہو چشمِ بُتاں محوِ تغافل، کیوں نہ ہو؟
  251. 20.72 دیا ہے دل اگر اُس کو، بشر ہے، کیا کہیے
  252. 20.73 دیکھ کر در پردہ گرمِ دامن افشانی مجھے
  253. 20.74 یاد ہے شادی میں بھی، ہنگامۂ "یارب"، مجھے
  254. 20.75 حضورِ شاہ میں اہلِ سخن کی آزمائش ہے
  255. 20.76 کبھی نیکی بھی اُس کے جی میں، گر آ جائے ہے، مُجھ سے
  256. 20.77 زبسکہ مشقِ تماشا جنوں علامت ہے
  257. 20.78 لاغر اتنا ہوں کہ گر تو بزم میں جا دے مجھے
  258. 20.79 بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
  259. 20.80 کہوں جو حال تو کہتے ہو "مدعا کہیے "
  260. 20.81 رونے سے اور عشق میں بےباک ہو گئے
  261. 20.82 نشّہ ہا شادابِ رنگ و ساز ہا مستِ طرب
  262. 20.83 عرضِ نازِ شوخیِ دنداں برائے خندہ ہے
  263. 20.84 حسنِ بے پروا خریدارِ متاعِ جلوہ ہے
  264. 20.85 جب تک دہانِ زخم نہ پیدا کرے کوئی
  265. 20.86 ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
  266. 20.87 بہت سہی غمِ گیتی، شراب کم کیا ہے؟
  267. 20.88 باغ تجھ بن گلِ نرگس سے ڈراتا ہے مجھے
  268. 20.89 روندی ہوئی ہے کوکبہ شہریار کی
  269. 20.90 ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
  270. 20.91 کوہ کے ہوں بارِ خاطر گر صدا ہو جائیے
  271. 20.92 مستی، بہ ذوقِ غفلتِ ساقی ہلاک ہے
  272. 20.93 لبِ عیسیٰ کی جنبش کرتی ہے گہوارہ جنبانی
  273. 20.94 آمدِ سیلابِ طوفانِ صدائے آب ہے
  274. 20.95 ہوں میں بھی تماشائیِ نیرنگِ تمنا
  275. 20.96 سیاہی جیسے گِر جاوے دمِ تحریر کاغذ پر
  276. 20.97 ہجومِ نالہ، حیرت عاجزِ عرضِ یک افغاں ہے
  277. 20.98 خموشی میں تماشا ادا نکلتی ہے
  278. 20.99 جس جا نسیم شانہ کشِ زلفِ یار ہے
  279. 20.100 آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
  280. 20.101 شبنم بہ گلِ لالہ نہ خالی ز ادا ہے
  281. 20.102 منظور تھی یہ شکل تجلّی کو نور کی
  282. 20.103 غم کھانے میں بودا دلِ ناکام بہت ہے
  283. 20.104 مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے
  284. 20.105 نویدِ امن ہے بیدادِ دوست جاں کے لیے
  285. 20.106 آپ نے مَسَّنی الضُّرُّ کہا ہے تو سہی
  286. 20.107 لطفِ نظّارۂ قاتِل دمِ بسمل آئے
  287. 20.108 میں ہوں مشتاقِ جفا، مجھ پہ جفا اور سہی
  288. 20.109 عجز و نیاز سے تو وہ آیا نہ راہ پر
  289. 20.110 اک گرم آہ کی تو ہزاروں کے گھر جلے
  290. 20.111 زندانِ تحّمل ہیں مہمانِ تغافل ہیں
  291. 20.112 مستعدِ قتلِ یک عالم ہے جلاّدِ فلک
  292. 20.113 نہ حیرت چشمِ ساقی کی، نہ صحبت دورِ ساغر کی
  293. 20.114 صبا لگا وہ طمانچہ طرف سے بلبل کے
  294. 21 قصائد
  295. 21.1 منقبتِ حیدری
  296. 21.2 منقبت (حضرت علی کے لیے)
  297. 21.3 مدحِ شاہ
  298. 21.4 غزل
  299. 21.5 مدحِ شاہ
  300. 21.6 زہرِ غم کر چکا تھا میرا کام
  301. 21.7 مدحِ شاہ
  302. 21.8 کُنج میں بیٹھا رہوں یوں پَر کھلا
  303. 21.9 ایلین براؤن
  304. 21.10 والیِ الور کی سالگرہ پر
  305. 21.11 میکلوڈ صاحب کی خدمت میں
  306. 21.12 نوّاب یوسف علی خاں
  307. 21.13 مدح نصرت الملک بہادر
  308. 21.14 در مدحِ شاہ
  309. 21.15 گزارش مصنّف بحضورِ شاہ
  310. 22 در صفتِ انبہ
  311. 23 ایک دن مثلِ پتنگِ کاغذی
  312. 24 خمسہ
  313. 24.1 تضمین بر غزل بہادر شاہ ظفر
  314. 25 مرثیہ
  315. 25.1 سلام
  316. 26 سہرے
  317. 26.1 خوش ہو اَے بخت کہ ہے آج تِرے سر سہرا
  318. 26.2 ہم نشیں تارے ہیں، اور چاند شہاب الدیں خاں
  319. 26.3 چرخ تک دھوم ہے، کس دھوم سے آیا سہرا
  320. 26.4 بیانِ مصنّف (گزارشِ غالبؔ)
  321. 27 قطعات
  322. 27.1 گزارشِ غالبؔ
  323. 27.2 گئے وہ دن کہ نا دانستہ غیروں کی وفا داری
  324. 27.3 ہائے ہائے
  325. 27.4 در مدح ڈلی
  326. 27.5 بیسنی روٹی
  327. 27.6 چہار شنبہ آخرِ ماہِ صفر
  328. 27.7 روزہ
  329. 27.8 طائرِ دل
  330. 27.9 خط منظوم بنام علائی
  331. 27.10 قطعہ تاریخ
  332. 27.11 قطعہ تاریخ
  333. 27.12 قطعہ تاریخ
  334. 27.13 بلا عنوان
  335. 27.14 سہل تھا مُسہل ولے یہ سخت مُشکل آ پڑی
  336. 27.15 گو ایک بادشاہ کے سب خانہ زاد ہیں [1]
  337. 27.16 ایک اہلِ درد نے سنسان جو دیکھا قفس
  338. 27.17 اے جہاں آفریں خدائے کریم
  339. 27.18 گوڑگانویں کی ہے جتنی رعیّت، وہ یک قلم
  340. 28 رباعیات
  341. 28.1 شب زُلف و رُخِ عَرَق فِشاں کا غم تھا
  342. 28.2 دل سخت نژند ہو گیا ہے گویا
  343. 28.3 دکھ جی کے پسند ہو گیا ہے غالبؔ
  344. 28.4 آتشبازی ہے جیسے شغلِ اطفال
  345. 28.5 بعد از اِتمامِ بزمِ عیدِ اطفال
  346. 28.6 مشکل ہے زبس کلام میرا اے دل
  347. 28.7 ہیں شہ میں صفاتِ ذوالجلالی باہم
  348. 28.8 کہتے ہیں کہ اب وہ مَردُم آزار نہیں
  349. 28.9 سامانِ خور و خواب کہاں سے لاؤں؟
  350. 28.10 دل تھا، کہ جو جانِ دردِ تمہید سہی
  351. 28.11 ہے خَلقِ حسد قماش لڑنے کے لیے
  352. 28.12 بھیجی ہے جو مجھ کو شاہِ جَمِ جاہ نے دال
  353. 28.13 حق شہ کی بقا سے خلق کو شاد کرے
  354. 28.14 اِس رشتے میں لاکھ تار ہوں، بلکہ سِوا
  355. 28.15 ہم گر چہ بنے سلام کرنے والے
  356. 28.16 اِن سیم کے بِیجوں کو کوئی کیا جانے
  357. 28.17 رقعے کا جواب کیوں نہ بھیجا تم نے
  358. 28.18 اے روشنیِ دیدہ شہاب الدیں خاں
  359. 28.19 اے منشیِ خیرہ سر سخن ساز نہ ہو
  360. 28.20 جن لوگوں کو ہے مجھ سے عداوت گہری
  361. 29 متفرقات
  362. 30 ضمیمۂ اول
  363. 30.1 بدتر از ویرانہ ہے فصلِ خزاں میں صحنِ باغ
  364. 30.2 خزینہ دارِ محبت ہوئی ہوائے چمن
  365. 30.3 کرم ہی کچھ سببِ لطف و التفات نہیں
  366. 30.4 جوں شمع ہم اک سوختہ سامانِ وفا ہیں
  367. 30.5 نالے دل کھول کے دو چار کروں یا نہ کروں
  368. 30.6 وضعِ نیرنگیِ آفاق نے مارا ہم کو
  369. 30.7 حسنِ بے پروا گرفتارِ خود آرائی نہ ہو
  370. 30.8 نہ پوچھ حال اس انداز اس عتاب کے ساتھ
  371. 30.9 بتائیں ہم تمہارے عارض و کاکُل کو کیا سمجھے
  372. 30.10 نسیمِ صبح جب کنعاں میں بوئے پیرَہن لائی
  373. 30.11 وفا جفا کی طلب گار ہوتی آئی ہے
  374. 30.12 یونہی افزائشِ وحشت کے جو ساماں ہوں گے
  375. 30.13 نمائش پردہ دارِ طرز بیدادِ تغافل ہے
  376. 30.14 خود جاں دے کے روح کو آزاد کیجیے
  377. 30.15 ہم سے خوبانِ جہاں پہلو تہی کرتے رہے
  378. 30.16 درد ہو دل میں تو دوا کیجے
  379. 30.17 سکوت و خامشی اظہارِ حالِ بے زبانی ہے
  380. 30.18 کس کی برقِ شوخیِ رفتار کا دلدادہ ہے
  381. 30.19 اس جور و جفا پر بھی بدظن نہیں ہم تجھ سے
  382. 31 آفت آہنگ ہے کچھ نالۂ بلبل ورنہ
  383. 32 ضمیمۂ دوم
  384. 32.1 دعوۂ عشقِ بتاں سے بہ گلستاں گل و صبح
  385. 32.2 بسکہ ہیں بدمستِ بشکن بشکنِ میخانہ ہم
  386. 32.3 صاف ہے ازبسکہ عکسِ گل سے گلزارِ چمن
  387. 32.4 ضبط سے مطلب بجز وارستگی دیگر نہیں
  388. 32.5 ہم زباں آیا نظر فکرِ سخن میں تو مجھے
  389. 32.6 یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے
  390. 32.7 بسکہ حیرت سے ز پا افتادۂ زنہار ہے
  391. 32.8 نیم رنگی جلوہ ہے بزمِ تجلی رازِ دوست
  392. 33 کتابیات