آپ شاید حیران ہوں کہ امن عالم پر گفتگو اور اس کی ابتدا انفرادی سکون و اطمینان سے! لیکن آپ ذرا غور سے کام لیں گے تو خود محسوس فرما لیں گے کہ عالمی امن کے قیام میں اصل فیصلہ کن عامل افرادِ نسل انسانی کا انفرادی سکون و اطمینان ہی ہے‘ اس لیے کہ:
(۱) پورے عالم ِانسانی کی اصل اکائی (unit) بہرحال فردہی ہے. جس طرح ایک فصیل چاہے وہ کتنی ہی لمبی‘ چوڑی اور اونچی کیوں نہ ہو‘ بنی تو بہرحال اینٹوں ہی سے ہوتی ہے اور اس کی مضبوطی کا سارا دار و مدار اینٹوں کی پختگی ہی پر ہوتا ہے‘ اسی طرح امن عالم کا تصور بھی افراد نسل انسانی کے داخلی سکون و اطمینان کے بغیر نہیں کیا جا سکتا.
(۲) واقعہ یہ ہے کہ انسان ’عالم اصغر‘ ہے اور اس کے باطن میں نہ صرف یہ کہ عالم ارضی بلکہ پوری کائنات منعکس موجود ہے. اس حقیقت ِعظمیٰ کو نفسیاتِ انسانی کے سب سے بڑے عالموں یعنی صوفیائے اسلام نے خوب سمجھا ہے. چنانچہ انہی کی اصطلاح کو میں نے اپنے مافی الضمیر کے اظہار کے لیے منتخب کیا ہے. اس بات کو تو عام طور پر سب ہی لوگ جانتے ہیں کہ انسان کے باطن پر خارج کے اثرات مترتب ہوتے ہیں اور کائناتِ ارضی و سماوی کے تمام واقعات و حوادث انسان کی داخلی کیفیات پر اثر انداز ہوتے ہیں‘ لیکن اس حقیقت سے بہت کم لوگ واقف ہیں‘ تاہم یہ ہے ایک امر واقعہ ‘ کہ اس عالم ِاصغر یعنی انسان کا باطن بھی عالم ِاکبر یعنی کائنات پر اثر انداز ہوتا ہے اور خارج کی وسعتوں اور پہنائیوں پر عکس ڈالتاہے. لہذا نسل انسانی کے افراد کے باطن میں اگر سکون واطمینان موجود ہو گا تو لامحالہ کائناتِ ارضی و سماوی پر بھی اس کا عکس پڑے گا اور امن عالم کا قیام ممکن ہوسکے گا.
(۳) تاریخ عالم پر ایک طائرانہ نظر ڈالیے تو صاف نظر آئے گا کہ بسااوقات بعض افراد کے داخلی انتشار و فساد کی وجہ سے عظیم خوں ریزیاں ہوئیں اور امن عالم تہ و بالا ہوا. ہلاکو اور چنگیز خاں اور ہٹلر اور مسولینی ایسے لوگوں کی شخصیتوں کا ذرا دقت ِنظر کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو صاف معلو م ہو جائے گا کہ ان کے جذبات و احساسات کے اختلال اور ذہنی و قلبی انتشار ہی کے نتیجے میں پورے عالم ِارضی کا سکون و چین ختم ہوا اور بے اندازہ قتل و غارت کا بازار گرم ہوا.
(۴) اِس وقت بھی ذرا آنکھیں بند کر کے سوچیے کہ کریملن اور وہائٹ ہاؤس میں جو معدودے چند لوگ اقتدار و اختیار کی گدیوں پر قابض ہیں ‘ ان کے داخلی امن و سکون کا کتنا گہرا تعلق عالمی امن کے ساتھ ہے. آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ ان میں سے کسی ایک یا چند ایک کے ذہنی اختلال ہی نہیں محض اعصابی تنائو کی بدولت کتنی ہلاکت خیز جنگ چھڑ سکتی ہے اور کیسا کچھ خون خرابہ ہو سکتا ہے.