اس اعتبار سے دیکھاجائے تو اسلام کا معاملہ بالکل منفرد نظر آتا ہے. آپ کو معلوم ہے کہ اس کی اساس جن بنیادی اعتقادات پر قائم ہے ان کا مجموعی نام ہی ’ایمان‘ ہے ‘ جس کا مادہ ’امن‘ ہے اور جس کا اصل حاصل وہ سکون و اطمینان ہے جو اس کی بدولت نفس انسانی میں پیدا ہوتا ہے.

ایمان کا اصل الاصول ’ایمان باللہ‘ ہے‘ جو عبارت ہے اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کے ساتھ توکل و اعتماد اور تسلیم و تفویض کے ایسے تعلق سے جو انسان کو حقیقی امن و سکون اور راحت و چین سے ہمکنار کرتا ہے اور انسان کے داخلی امن کے لیے ایک مثبت و محکم اساس فراہم کرتا ہے. اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک فردِ نوعِ بشر کا مخلصانہ تعلق جس کا اصطلاحی نام ’توحید‘ ہے ‘ بالآخر انسان کو 
’’ رَضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ ؕ ‘‘ کے اُس مقامِ رضا پر فائز کرتا ہے جہاں پہنچنے کے بعد انسان کو نہ کوئی خطرہ و خدشہ رہتا ہے‘ نہ حزن و ملال (۱اور اس کے سینے میں انشراح اور قلب میں انبساط کی وہ کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جو محسوس تو کی جا سکتی ہے‘ بیان میں نہیں آ سکتی.

سورۃ الانعام کی آیات ۸۱.۸۲ میں پہلے ایک سوال کیا گیاکہ: 

فَاَیُّ الۡفَرِیۡقَیۡنِ اَحَقُّ بِالۡاَمۡنِ ۚ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۘ۸۱﴾ 
’’اگر تم جانتے ہو توبتاؤ کہ امن کا اصل حق دار کون سا فریق ہے؟‘‘

اور پھر جواب دیا گیا ہے کہ: 

اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ لَمۡ یَلۡبِسُوۡۤا اِیۡمَانَہُمۡ بِظُلۡمٍ اُولٰٓئِکَ لَہُمُ الۡاَمۡنُ 
’’امن تو بس ان کے لیے ہے جو ایمان لائیں اور اس میں شرک کی کوئی آمیزش نہ کریں.‘‘

غرض ایمان باللہ انسان کے داخلی امن کا واحد مثبت ذریعہ ہے اور قلب انسانی کو حقیقی امن و سکون سوائے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک ایسے مخلصانہ اور مضبوط و محکم تعلق کے کسی اور چیز سے حاصل نہیں ہو سکتا جس کا ذریعہ ذکر الٰہی ہے. اسی لیے فرمایا گیا کہ: 

اَلَا بِذِکۡرِ اللّٰہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ ﴿ؕ۲۸﴾ (الرعد) 
’’آگاہ ہوجاؤ کہ قلوب ِانسانی ذکرِ الٰہی ہی سے اطمینان پاتے ہیں.‘‘