خطبہ اول: عالمی خلافت کی نوید

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

آیۂ استخلاف کا اجمالی تعارف

میں نے اپنے خطاب کے شروع میں جو آیات ِمبارکہ تلاوت کی ہیں‘ ان میں سے پہلی سورۃ النور کی آیت ۵۵ میں ارشادِ ربانی ہے:

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَ مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ ﴿۵۵﴾ (النور)
’’وعدہ کر لیا ہے اللہ نے ان لوگوں سے جو تم میں ایمان لائے ہیں اور کیے ہیں انہوں نے نیک کام‘ البتہ پیچھے حاکم کر دے گا ان کو ملک میں جیسا حاکم کیا تھا ان سے اگلوں کو اور جما دے گا ان کے لیے دین اُن کا جو پسند کر دیا ان کے واسطے اور دے گا ان کو ان کے ڈر کے بدلے میں امن. میری بندگی کریں گے‘ شریک نہ کریں گے میرا کسی کو. اور جو کوئی ناشکری کرے گا اس کے پیچھے‘ سو وہی لوگ ہیں نافرمان.‘‘

اس آیۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ایمان اور عمل صالح کا حق ادا کرنے والے مسلمانوں سے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ ان کو زمین میں ضرور خلافت عطا فرمائے گا. یہاں پر خلافت سے مراد مسلمانوں کی حکومت ہے. 

اس وعدے کے سلسلے میں مزید وضاحت یہ فرما دی کہ یہ خلافت یا حکومت موجودہ اُمت ِمسلمہ (جو اُمت ِمحمد ہے) کو اسی طرح عطا کی جائے گی جس طرح اس سے پہلے کی اُمت ِمسلمہ (بنی اسرائیل) کو عطا کی گئی تھی. (۱)

اس آیت میں اشارہ کیا جا رہا ہے کہ ہم نے اس سابقہ امت کو بھی حکومت عطا کی تھی‘ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:

یٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلۡنٰکَ خَلِیۡفَۃً فِی الۡاَرۡضِ (صٓ: ۲۶
’’اے داؤد! ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ (۲بنایا.‘‘

گویا تاریخ کے حوالے سے بتایا جا رہا ہے کہ اے اُمت ِمسلمہ! تم میں سے جو لوگ ایمان اور عمل صالح کا حق ادا کر دیں 
گے ہم انہیں لازماً خلافت عطا کریں گے جس طرح تم سے پہلوں کو عطا کی تھی.

آیۂ مبارکہ کامطالعہ کرتے ہوئے یہ بات نوٹ کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے جو وعدہ فرمایا ہے اس کے لیے عربی زبان میں تاکید کا جو سب سے زیادہ مؤثر اور بلیغ اسلوب ممکن تھا اس کو تین بار استعمال کیا ہے. 

(i) لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ
’’انہیں ضرور بالضرور خلافت عطا کرے گا.‘‘ 
(ii) 
وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ 
’’اور ان کے دین کو لازماً تمکن عطا کرے گا.‘‘ 
(iii) 
وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ 

’’ان کی خوف کی حالت کو جو اس وقت ان پر طاری ہے‘ لازماً امن میں بدل دے گا.‘‘

دیکھئے یہ ایک ہی مضمون کی تکرار ہے‘ لیکن قرآن حکیم کی تکرار کی بھی ایک عجیب شان ہوتی ہے. جیسے کسی نے کہا ہے: ؏ اِک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں!قرآن حکیم میں ایک ہی مضمون کو مختلف اسالیب میں بیان کیا جاتا ہے‘ مگر اس تکرار سے کلام کی تأثیر اور دلکشی میں کمی کی بجائے مزید اضافہ ہو جاتا ہے.

پھر یہ جو فرمایا کہ ’’اور ان کے اس دین کو تمکن عطا کرے گا جو اس نے ان کے (۱) ہر خطبے کے حواشی اس خطبے کے اختتام پر درج کیے گئے ہیں! لیے پسند کیا ہے‘‘ تو یہ وہی بات ہے جو سورۃ المائدہ میں آئی ہے:
اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا ؕ (المائدۃ : ۳)

’’آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کی تکمیل کر دی‘ تم پر اپنی نعمت کا اتمام کر دیا اور تمہارے لیے اسلام کو (تا قیامِ قیامت) دین کی حیثیت سے پسند کیا.‘‘

اور ظاہر ہے کہ جس دین کو اللہ نے پسند فرمایا وہ مغلوب نہیں رہے گا بلکہ اس کو غلبہ اور تمکن حاصل ہو گا. یہ گویا وعدۂ استخلاف کی دوسری بار تاکید ہے. 

یہی بات تیسری بار اس طرح بیان فرمائی:

وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ
’’ان کی خوف کی حالت کو (جو اس وقت ان پر طاری ہے) لازماً امن میں بدل دے گا.‘‘

سورۃ النور کی یہ آیات سن ۵ھ کے اواخر یا سن ۶ھ کے اوائل میں نازل ہوئی تھیں‘ اور جیسا کہ معلوم ہے سن ۵ھ ہی میں غزوۂ احزاب پیش آیا تھا‘ جب عرب کی مجموعی قوت نے تقریباً ایک ماہ اور کئی دن تک مدینہ کا شدید محاصرہ کر لیا تھا. ۱۲ ہزار کا لشکر مدینہ کی چھوٹی سی بستی پر حملہ آور ہوا تھا. مدینہ کے اردگرد یہود الگ سازشوں میں مصروف تھے. مسلمانوں پر شدید آزمائش کی گھڑی تھی. خود قرآن حکیم نے صورت حال کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے: 

وَ زُلۡزِلُوۡا زِلۡزَالًا شَدِیۡدًا ﴿۱۱﴾ (الاحزاب) 

’’اہل ایمان شدید طور پر ہلا مارے گئے.‘‘ 
اس سنگین صورتحال کا نتیجہ یہ نکلاکہ منافقین کا نفاق ان کی زبانوں پر آ گیا‘ گویا ان کا خبث ِباطن ظاہرہو گیا. اس وقت یوں لگتا تھا جیسے لق و دق صحرا میں ایک دیا روشن ہے جسے بجھانے کے لیے ہر طرف سے آندھیاں چل رہی ہیں. خطرہ محسوس ہوتا تھا کہ ابھی ہوازن کا بڑا قبیلہ حملہ آور ہو جائے گا. نجد کے قبائل یورش کر دیں گے. کہیں خیبر 
کے یہودی ہی نہ ٹوٹ پڑیں یا پھر جنوب کی طرف سے قرشی نہ چڑھ دوڑیں.یہ تھے وہ حالات جن میں یہ بشارت دی گئی کہ ان کی اس خوف کی کیفیت کو ہم امن سے بدل دیں گے. 

آیۂ مبارکہ کا یہ حصہ بہت ہی اہم ہے کہ 
یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ یعنی ’’(جب میں ان کو غلبہ عطا کر دوں گا تب) وہ میری بندگی کریں گے‘ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے‘‘. یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سے پہلے بھی مسلمان اگرچہ خوف کی حالت ہی میں تھے ‘لیکن بندگی تو اللہ ہی کی کرتے تھے‘ پھر اب غلبہ ٔدین اور خوف کے خاتمے کے ساتھ بندگی کو کیوں معلق کیا گیا؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ توحید اُس وقت تک ناقص ہے جب تک اللہ کا دین غالب نہ ہو جائے. قرآن حکیم نے اسی بات کو اس طرح بیان کیا ہے: وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ (الانفال : ۳۹یعنی ’’دین کل کا کل اللہ کے لیے ہو جائے‘‘. غیر اللہ کی حاکمیت کی کاملاً نفی ہو جائے‘ اس لیے کہ غیر اللہ کی حاکمیت کا تصور ہی سب سے بڑا شرک ہے. چنانچہ سورۃ المائدہ میں آیا ہے: وَ مَنۡ لَّمۡ یَحۡکُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡکٰفِرُوۡنَ ﴿۴۴﴾ ....الظّٰلِمُوۡنَ ﴿۴۵﴾.... الۡفٰسِقُوۡنَ ﴿۴۷﴾ (المائدۃ) یہی وجہ ہے کہ جب تک نظام خلافت قائم نہ ہو تب تک افراد تو موحد ہو سکتے ہیں‘ لیکن نظام بہرحال کافرانہ و مشرکانہ ہی رہتا ہے. چنانچہ دراصل توحید کی تکمیل ہی اُس وقت ہو گی جب یہ تین وعدے پور ے ہو جائیں گے.