اللہ کا دین یقینا غالب ہوگا. نبی اکرم  کا مقصد ِبعثت ہی غلبۂ دین ہے. لیکن اس کے لیے سرفروشی‘ جانفشانی اور جہاد و قتال کے مراحل تو مؤمنینِ صادقین ہی کو طے کرنے ہیں. چنانچہ فرمایا:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ہَلۡ اَدُلُّکُمۡ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنۡجِیۡکُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿۱۰﴾تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِکُمۡ وَ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۙ۱۱﴾ (الصف) 

’’اے اہل ایمان! کیا میں تمہاری رہنمائی اس تجارت کی طرف کروں جو تمہیں درد ناک عذاب سے نجات دلادے؟ (پختہ) ایمان رکھو اللہ پر اور اس کے رسولؐ پر اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ. اگر تم علم (حقیقی) رکھتے ہو تو (جان لو کہ) یہی تمہارے لیے بہتر ہے.‘‘ 

سورۃالصف کی ان آیات پر ذرا ٹھہر کر ہمیں اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے. سورۃ النور کی آیت ۵۵ میں نظام خلافت کے قیام کے لیے دو شرائط آئی تھیں‘ یعنی وعدہ ایمان اور عمل صالح کے ساتھ مشروط تھا. اس مقام پر بھی دو ہی شرائط آئی ہیں‘ یعنی ایمان اور جہاد فی سبیل اللہ. وہ ایمان‘ وہ عمل صالح اور وہ جہاد کون سے ہیں جن سے یہ وعدے پورے ہو سکتے ہیں؟ افسوس ہے کہ ہمارے ذہنوں میں ایمان‘ عمل صالح اور جہاد کے معنی بہت محدود اور مسخ شدہ ہیں‘ اس لیے ان کی حقیقت کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے.