آیئے اب یہ دیکھیں کہ تاریخی اعتبار سے یہ وعدۂ استخلاف و نصرت کتنی جلدی پوراہوا. مذکورہ بالا آیات سن ۵ھ کے اواخر یا سن ۶ھ کے اوائل میں نازل ہوئیں. ۶ھ کے ذی القعدہ میں صلح حدیبیہ ہو گئی اور قرآن نے اعلان کر دیا : اِنَّا فَتَحۡنَا لَکَ فَتۡحًا مُّبِیۡنًا ۙ﴿۱﴾ (الفتح) ’’اے نبی! ہم نے تم کو فتح مبین (۶عطا کی.‘‘ ۶ھ کی صلح حدیبیہ کے فوراً بعد ۷ھ میں خیبر فتح ہو گیا. مسلمانوں کی تنگ دستی ختم ہوئی. پھر ۸ ھ میں خود مکہ فتح ہو گیا اور جزیرہ نمائے عرب میں اعلان کر دیا گیا: بَرَآءَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖۤ اِلَی الَّذِیۡنَ عٰہَدۡتُّمۡ مِّنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ؕ﴿۱﴾ (التوبہ) یعنی ’’مشرک کان کھول کر سن لیں کہ آج کے بعد سے ان کے ساتھ مسلمانوں کا کوئی معاہدہ نہیں‘‘. چنانچہ ایک سال کے اندر اندر جزیرہ نمائے عرب سے کفر و شرک کا خاتمہ کر دیا گیا. سورۃ التوبۃ میں mopping-up operation کا اعلان کر دیا گیا. کسی علاقے کے مفتوح ہو جانے کے بعد بھی کہیں کہیں مزاحمتی اور دفاعی مورچے (pockets of resistance) باقی رہ جاتے ہیں‘ فتح مکہ کے بعد ان مزاحمتی مورچوں کی صفائی سن ۹ھ میں ہوئی. پھر ۹ھ کے اواخر یا ۱۰ھ کے اوائل تک وَ قُلۡ جَآءَ الۡحَقُّ وَ زَہَقَ الۡبَاطِلُ ؕ اِنَّ الۡبَاطِلَ کَانَ زَہُوۡقًا ﴿۸۱﴾ (بنی اسرائیل ) کابچشم سر مشاہدہ ہو گیا اور جزیرہ نمائے عرب کی حد تک اللہ کا دین غالب ہو گیا. نظامِ خلافت کا وعدہ پورا ہو گیا. نبی اکرم  کی وفات کے بعد۲۴ برس کے اندر اندر دریائے جیحوں سے لے کر بحراوقیانوس تک نظام خلافت غالب ہو گیا. گویا آیت ِاستخلاف کے نزول کے بعد تیس برس کے اندر اندر معروف دنیا کے بہت بڑے رقبے پر وہ کیفیتیں پوری ہو گئیں جن کو لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕکے بلیغ انداز میں بیان فرما دیا گیاتھا.