یہ تو ہے وعدۂ استخلاف و نصرت کی تکمیل ِاُولیٰ. البتہ اس کے بعد کیا ہوا‘ اُس وقت سے اب تک ہم کن کن مرحلوں اور وادیوں سے گزرے اور اب ؎ 

کون سی وادی میں ہے‘ کون سی منزل میں ہے
عشق بلا خیز کا قافلۂ سخت جاں! 

یہ تیرہ سو اکتیس برس کی تاریخ ہے.۶۳۲ء میں نبی  کی وفات ہوئی‘ تیس برس خلافت راشدہ کے اور نکال دیجیے. اس حساب سے تیرہ سو اکتیس سال بنتے ہیں (۷. اگر ہم اپنی کوشش سے اس ساری داستان کو بہت مختصر کر کے بیان کریں تو بھی بات بہت طویل ہو جائے‘ لیکن یہ کلامِ نبویؐ کی بلاغت ہے کہ ہم اس طویل تاریخ کو صرف ایک حدیث نبویؐ سے سمجھ لیں گے.

نبی اکرم  نے ایک حدیث مبارک میں اپنے زمانے سے لے کر قیامت تک پانچ ادوار کا ذکر کیا ہے. ہماری پوری تاریخ اس حدیث میں سمٹ کر آ گئی ہے. مسند احمد بن حنبلؒ کی روایت ہے جسے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے: 
تَـکُوْنُ النُّـبُـوَّۃُ فِیْکُمْ مَاشَاءَ اللہُ اَنْ تَـکُوْنَ‘ ثُمَّ یَرْفَعُھَا اللہُ اِذَا شَاءَ اَنْ یَّرْفَـعَھَا ’’مسلمانو! تمہارے اندر نبوت رہے گی جب تک اللہ چاہے گا‘ پھر جب اللہ چاہے گا اس نبوت کو اٹھالے گا.‘‘ (۸پھر آپ  نے دوسرے دور کا ذکر کیا ہے: ثُمَّ تَـکُوْنُ خِلَافَۃً عَلٰی مِنْھَاجِ النُّـبُوَّۃِ ’’پھر خلافت ہوگی منہاجِ نبوت پر.‘‘