اس کے الفاظ بہت قابل غور ہیں. اس دور کے لیے ہمارے ہاں معروف اصطلاح ’’خلافت ِراشدہ‘‘ ہے. تاہم یہ اصطلاح حدیث میں اس طرح نہیں آئی. ہاں ’’خلفاء راشدین‘‘ کے الفاظ وارد ہوئے ہیں‘ جیسا کہ مشہور حدیث ہے: عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَھْدِیِّیْنَ ’’میری سنت کا اتباع کرنا اورمیرے خلفاء راشدین المہدیین کی سنت کا اتباع کرنا تم پر لازم ہے‘‘. لیکن حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کی زیر مطالعہ روایت میں خلافت کی جو صفت آئی ہے وہ اتنی مشہور نہیں ہے. اللہ نے یہ توفیق ہم کو دی کہ ہم اپنی تقاریر اور مطبوعات کے ذریعے اس صفت کو عام کر رہے ہیں. خلافت علیٰ منہاجِ النبوۃ کے معنی ہوں گے کہ ’’بعینہٖ نبوت کے نقش ِقدم پر خلافت‘‘. یہ ’’بعینہٖ‘‘ کا لفظ خصوصی اہمیت کا حامل ہے‘ کیونکہ خلافت راشدہ میں وہ نظام جو محمد عربی نے بنفس نفیس قائم کیا تھا وہ بعینہٖ بتمامہٖ اور بکمالہٖ جوں کا توں قائم رہا.