اس سلسلے میں صرف ایک مثال دینا کافی سمجھتا ہوں. حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد مبارک کے آغاز ہی میں مانعینِ زکوٰۃ کا فتنہ اُٹھ کھڑا ہوا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے عظیم شخص نے بھی مصلحت اندیشی کا مشورہ دیا‘ کیونکہ دو محاذ پہلے ہی کھلے ہوئے تھے. حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک محاذ پر رومیوں سے جنگ کے لیے جیش اسامہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہہ کر روانہ کر دیا تھا کہ اس لشکر کے بھیجنے کا فیصلہ خود نبی نے کیا تھا‘ اس کا علم خود دست ِمبارک سے باندھا تھا‘ میں اسے کیسے کھول سکتا ہوں. دوسرا محاذ جھوٹے مد عیانِ نبوت کے خلاف کھل چکا تھا‘ ان کے کفر میں کسی شک کی گنجائش نہ تھی‘ چنانچہ ان سے تو لڑنا ہی تھا. اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ’’اب تیسرا محاذ نہ کھولیے‘‘. اس بات پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا رد عمل (reaction) بڑا ہی سخت تھا. انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بھی ڈانٹ پلا دی. یہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی کا مقام ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسی ہستی کو وہ ڈانٹ سکتے تھے. صحابہؓ میں کسی اور کا یہ مقام نہ تھا. حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے عمرؓ !تم جاہلیت میں تو بڑے سخت تھے‘ اسلام میں آ کر بزدل بن گئے؟ (أجبّار فی الجاھلیۃ و خوار فی الاسلام؟) اور دوسری بات جو آپ ؓ نے فرمائی دراصل اسی کو بیان کرنے کے لیے یہ سارا واقعہ میں نے نقل کیا ہے. فرمایا: أیُنْقَصُ الدِّینُ وَاَنَا حَیٌّ؟ ’’کیامیرے جیتے جی دین میں کمی کی جائے گی؟‘‘آپؓ نے مزید فرمایا :’’خدا کی قسم! اگر حضور  کے زمانے میں زکوٰۃ کے اونٹوں کے ساتھ یہ ان کو باندھنے کی رسیاں دیتے تھے‘ مگر اب رسی دینے سے انکار کریں گے تو بھی میں ان سے جنگ کروں گا.‘‘ 

کمیونزم اب تو قصہ پارینہ بن چکا ہے‘ لیکن اس کے زوال کا آغاز نظریات میں ترمیم سے ہوا تھا. کہنے والے کہتے تھے کہ کمیونزم عالمی نظریہ کے بجائے روسی قوم پرستی 
(Russian Nationalism) کا لبادہ اوڑھ چکا ہے‘ چنانچہ تحریف کی ایک خشت ِکج نے پوری عمارت کو زمین بوس کر دیا.

دورِ حاضر کی اس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے موقف پر غور کریں. آپ ؓ نے اظہار مافی الضمیر میں فصاحت و بلاغت کی بھی حد کر دی. کہاں اونٹ اور کہاں اس کی رسی‘ لیکن جناب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو اتنی مداہنت یا ترمیم بھی گوارا نہ تھی. آپ ؓ کے جذبات کی شدت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپؓ نے اعلان کر دیا تھا: ’’خدا کی قسم! اور کوئی میرے ساتھ جائے یا نہ جائے میں تن تنہا جاؤں گا اور ان سے جنگ کروں گا.‘‘ آخر امت نے آپؓ کو 
’’افضل البشر بعد الانبیاء بالتحقیق‘‘ (بلاشبہ انبیاء کے بعد تمام انسانوں سے افضل) کا اعلیٰ مقام یونہی تو نہیں دے دیا تھا! آپؓ جیسا رقیق القلب انسان اس نازک موقع پر عزیمت و استقلال کا کو ہِ ہمالہ نظر آتا ہے.
بہرحال اس ساری بحث سے یہ بات واضح ہو گئی کہ خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے معنی حقیقتاًہیں کیا اور اس سے فی الواقع مراد کیا ہے. اسی خلافت کو عرفِ عام میں خلافت ِراشدہ کہا جاتا ہے.

حضور  نے اپنی حدیث مبارک میں مزید فرمایا کہ یہ نظام بھی اُس وقت تک رہے گا جب تک اللہ چاہے گا. اس کے بعد یہ بھی ختم ہو جائے گا. آگے بڑھنے سے پہلے اس نکتے پر بھی غور کر لیں کہ کیا خود حضور کا دور بھی دورِ خلافت تھا یا نہیں؟ یقینا 
آپؐ کا دور بھی دورِخلافت ہی ہے. ہر نبی اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہوتا ہے. قرآن حکیم خود کہتا ہے: یٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلۡنٰکَ خَلِیۡفَۃً فِی الۡاَرۡضِ (ص:۲۶’’اے داؤد! ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا.‘‘ بلکہ آپ  کا دورِ خلافت اب ایک ’’ماڈل‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے‘جیسا کہ ارشاد ہے: لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ (الاحزاب:۲۱’’تمہارے لیے اللہ کے رسولؐ میں بہترین نمونہ ہے.‘‘ چنانچہ اب قیامت تک جو بھی نظام ہوں گے انہیں اسی کے حوالے سے پرکھا جائے گا.
اس کے بعد نبی  نے تیسرے دور کا ذکر اس طرح فرمایا ہے: 
ثُمَّ یَکُوْنُ مُلْکًا عَاضًّا فَـتَکُوْنُ مَا شَآءَ اللہُ اَنْ تَکُوْنَ‘ ثُمَّ یَرْفَعُھَا اللہُ اِذَا شَاءَ اَنْ یَّرْفَعَھَا یعنی ’’پھر ایک دورِ ملوکیت آئے گا اور یہ کاٹ کھانے والی ملوکیت ہو گی. یہ دور بھی اس وقت تک رہے گا جب تک اللہ چاہے گا. پھر اللہ جب چاہے گا‘ اسے بھی اٹھا لے گا.‘‘