جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا‘حدیث مبارکہ کے مطابق بہرحال اس دور کو بھی ختم ہونا ہے اور اس کے بعد آپؐ نے آخری دَور کا تذکرہ فرمایاہے: ثُمَّ تَـکُوْنُ خِلَافَۃً عَلٰی مِنْھَاجِ النُّـبُـوَّۃِ ’’پھر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا دور آئے گا.‘‘ یہ ہے وہ نوید ِجاں فزا‘ وہ خوشخبری جو موجودہ مایوس کن حالات کے لیے نبی اکرم  نے سنائی ہے.

اس حدیث مبارکہ کے راوی حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ 
ثُمَّ سَکَتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ یعنی ’’اس کے بعد اللہ کے رسول  خاموش ہو گئے.‘‘ اسی حدیث مبارکہ کو مولانا مودودی مرحوم نے قدرے تفصیل سے اپنی کتاب ’’تجدید و احیائے دین‘‘ میں نقل کیا ہے. اس روایت میں اضافی مضمون یہ ہے کہ:

’’جب خلافت علی منہاج النبوت کا نظام قائم ہو جائے گا تو لوگوں میں معاملہ سنت محمد  کے مطابق ہو گا اور اسلام اپنے جھنڈے زمین میں گاڑ دے گا. آسمان والے بھی راضی ہو جائیں گے اور زمین والے بھی. آسمان اپنا ہر ہر (مبارک) قطرہ موسلا دھار بارش کی شکل میں زمین پر برسا دے گا اور زمین بھی اپنے تمام معدنی اور نباتاتی خزانے اگل دے گی.‘‘ 
گویا اس حدیث مبارکہ میں نظام خلافت کی اضافی شان وارد ہوئی ہے.ـ افسوس مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ مرحوم نے اس کا حوالہ نہیں دیا. میں امکانی کوشش کے باوجود اب تک حوالہ تلاش نہیں کر سکا.

اگر اس وقت کے معروضی حالات کو دیکھا جائے تو یہ بشارت بالکل ناممکن الوقوع نظر آتی ہے‘ لیکن ہمارے ایمان کا تقاضا ہے کہ جب نبی  کو ہم نے مان لیا ہے کہ وہ الصادق والمصدوق ہیں تو ان کی ہر خبر پر ایمان لانا لازم ہے. حدیث صحیح ہے‘ لہذا ایمان لانا ہے. شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں. ہم یقین کریں یا نہ کریں‘ ہونا وہی ہے جس کی آپ نے خبر دی ہے.