مسلمانانِ برعظیم کا استحقاق

بیسویں صدی کے حوالے سے آخری بات یہ ہے کہ جب خلافت کا برائے نام ادارہ بھی اغیار کی سازشوں اور اپنوں کی نادانیوں سے ختم کر دیا گیا تو ردِّ عمل کہاں ظاہر ہوا؟ صرف اور صرف برعظیم پاک و ہند میں صدائے احتجاج بلند کی گئی. خلافت کا ادارہ تو پورے عالم اسلام کی وحدت کا نشان تھا‘ اس لیے آنسو تو پورے عالم اسلام میں بہائے جانے چاہئیں تھے‘ لیکن کہیں کوئی رد عمل ظاہر نہ ہوا. اس ادارے کی بحالی کی تحریک چلی تو صرف اس صنم خانۂ ہند میں چلی اور اس شدت سے چلی کہ گاندھی کو بھی اس میں شریک ہوناپڑا. گاندھی نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ اگر اس نے اس موقع پر مسلمانوں کا ساتھ نہ دیا تو آئندہ کبھی بھی ان کا تعاون حاصل نہیں کیا جا سکتا. چنانچہ پور ابرعظیم اس نغمے سے گونج اٹھا: ؎

بولیں اماں محمد علی کی
جان بیٹا خلافت پہ دے دو! 

جیسا کہ اوپر اشارہ کیا گیا‘ خلافت کا یہ برائے نام ادارہ اپنوں کی غداری سے منسوخ ہوا تھا. بقول اقبال: ؎

چاک کر دی ترکِ ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی اپنوں کی دیکھ‘ اوروں کی عیاری بھی دیکھ!

مصطفی کمال پاشا نے اس وقت صہیونیت کے ایجنٹ کا کردار ادا کیا. (۱۰۱۹۲۴ء سے لے کر اب ۱۹۹۴ء تک ستر برس بیت گئے ہیں‘ لیکن پوری دنیا میں خلافت کے ادارے کا برائے نام وجود بھی نہیں. اُمت ِمسلمہ کی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا.