جیسا کہ اس سے قبل بھی کہا گیا ہے کہ نظامِ خلافت ایک مرتبہ پھر برپا ہو کر رہے گا‘ لیکن اب جب بھی خلافت قائم ہو گی تو یہ دنیا کے کسی ایک خطے پر محدود نہیں ہو گی بلکہ عالمی خلافت ہو گی. اس لیے کہ صراحت کے ساتھ احادیث ِنبویؐ میں اس کی پیشین گوئیاں موجود ہیں. حدیث کے علاوہ خود قرآنِ حکیم میں اس کا صغریٰ کبریٰ 
(۱۱موجودہے.
قرآن حکیم میں یہ الفاظِ مبارکہ 
ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖٖ تین مرتبہ ایک شوشے کے فرق کے بغیر وارد ہوئے ہیں. گویا یہ صغریٰ ہے. 

پھر قرآن مجید میں الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ یہ بات پانچ مرتبہ وارد ہوئی ہے کہ نبی  کی بعثت پورے عالم انسانی کے لیے ہے‘ جیسا کہ سورۂ سبا کی آیت ۲۸ میں ہے: 
وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا ’’اے نبیؐ ! ہم نے آپ کو تمام انسانوں کے لیے بشیر اور نذیر بنا کر ہی بھیجا ہے .‘‘ یہ کبریٰ ہے. اس کو صغریٰ کے ساتھ جمع کیجیے‘ نتیجہ سامنے آ جائے گا. بعثت ِمحمدی ؐ کا مقصد غلبہ ٔدین ہے (صغریٰ)‘ بعثت ِمحمدی ؐ تمام عالم انسانی کے لیے ہے(کبریٰ)‘ غلبہ ٔدین تمام عالم کے لیے ہے (نتیجہ). 

بعثت کا مقصد غلبہ ٔدین لازماً پورا ہو گا. مگر کب؟ اس کے جواب میں یہ حقیقت پیش نظر رہنی چاہیے کہ اس وعدے کا اِتمام ہماری آزمائش اور امتحان کی راہ سے گزرتا 
ہوا آگے بڑھے گا. چنانچہ ہمیں علامہ اقبال کا یہ پیغام یاد رکھنا چاہیے کہ: ؎ 

وقت فرصت ہے کہاں‘ کام ابھی باقی ہے
نورِ توحید کا اِتمام ابھی باقی ہے! 

اور جب یہ اِتمام ہو جائے گا تو بساطِ عالم کا نقشہ کچھ اس طرح پر ہو گا: ؎ 

آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغامِ سجود
پھر جبیں خاکِ حرم سے آشنا ہو جائے گی
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محو ِحیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے!
یہ چمن معمور ہو گا نغمہ توحید سے!!

گویا اُس وقت 
یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ (النور: ۵۵کی تصویر سامنے آ جائے گی.