اسی بات کو میں دو اور حوالوں سے واضح کرنا چاہتا ہوں. پہلی بات کا تعلق فلسفۂ ارتقاء سے ہے. ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم نے اپنی کتاب ’’Idealogy of the Future‘‘ میں فلسفہ ٔارتقاء کے مختلف مراحل بیان کیے ہیں. ایک فلسفہ ٔ ارتقاء وہ ہے جسے ڈاروِن نے بیان کیا ہے‘ اس کو ذہن سے نکال دیجیے‘ کیونکہ اس کے بعض گوشے ابھی تک حیاتیات کے میدان میں بھی مسلّم نہیں سمجھے جاتے. تاہم جہاں تک تعلق ہے نفس ِارتقاء کا تو اس کو سب سے پہلے بیان کرنے والے تو مسلمان فلسفی ابن مسکویہ ہیں. اس فلسفے کو بعد میں مولانا روم نے بھی بیان کیا ہے. ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم ارتقاء کا پہلا مرحلہPhysical Evolution یعنی ارتقاءِ طبعی بیان کرتے ہیں. کائنات کی تخلیق کے جدید نظریات کے مطابق تخلیق کا ایک مرحلہ (stage) وہ ہے جس سے کیمیاوی مرکبات (chemical compounds) بنے ہیں. ان سے جب نامیاتی مرکبات (organic compounds) وجود میں آ گئے جن میں حیات کی صلاحیت تھی تو گویا Physical Evolution اپنے نقطۂ عروج کو پہنچ گیا. اب حیات کا آغاز ہوا. اس کے بعد ارتقاء کادوسرا مرحلہ) (second phase ہے حیاتیاتی ارتقاء (Biological Evolution) اور ڈارون کی بحث اسی phase تک محدود ہے. انسان کی تخلیق کے ساتھ ہی یہ ارتقاء بھی اپنے عروج کو پہنچ گیا. اس سے آگے حیاتیاتی ارتقاء کی کوئی منزل نہیں.

اس کے بعد ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم نے جس مرحلۂ ارتقاء کا ذکر کیا ہے (وہ اسے ایک مرحلہ کہتے ہیں‘ مگر میں اسے دو مرحلوں میں تقسیم کرتا ہوں) وہ ہے نفسیاتی اور ذہنی ارتقاء یا 
Psychological and Intellectual Evolution کا مرحلہ. میرے نزدیک اسی مرحلے کا انتہائی عروج حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں. ڈاکٹر رفیع الدین اس کو نبی اکرم  تک لے آئے ہیں. یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تین نسبتیں ہیں: (i) خلیل اللہ(۱۲) (ii) امام الناس اور (iii) ابوالانبیاء‘ یعنی ان کے بعد تمام انبیاء ؑانہی کی نسل سے ہوئے ہیں چاہے وہ بنی اسرائیل میں سے ہوں‘ چاہے بنی اسمٰعیل میں سے ہوں یا بنی مدین میں سے.

محمد رسول اللہ پر رسالت کی تکمیل ہوئی ہے. آپؐ نے ایک معاشرے کو وہاں تک بلند کر دیا جہاں تک اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو رفعت عطا فرمائی تھی. حضرت نوح علیہ السلام کی قوم ہلاک ہوئی‘ اسی طرح ہود اور شعیب علیہما السلام کی قومیں ہلاک ہوئیں‘ لیکن محمد رسول اللہ قوم کو بلندی تک لے گئے اور ایک معاشرہ قائم کیا . یہ وہ کمال ہے جو محمدر سول اللہ  نے کر دکھایا ہے. 
اب اس سے اگلی بات وہ ہے جس کو ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم نے بیان کیا ہے. ارتقاء کا اب صرف ایک امکانی phase اور ہے‘ یعنی Globalization of the Revolution of Muhammad S.A.W.S.مطلب یہ کہ دنیا کا عمرانی ارتقاء اس انتہا کو پہنچ جائے گا جس کی جھلک محمد رسول اللہ نے دکھائی تھی اور نوع انسانی کی اجتماعی یادداشت میں جس کو ایک خوشگوار خواب کی حیثیت حاصل ہے‘ آپ ؐ نے جو معاشرہ قائم کیا تھا اس کی بنیاد پر ۱۹۳۷ء میں گاندھی نے اپنے اخبار ’’ہریجن‘‘ میں ایک مقالے میں کانگریسی وزراء کو خطاب کرتے ہوئے لکھا تھا کہ: ’’میں آپ لوگوں کے سامنے ابوبکر و عمررضی اللہ عنہما کی مثال پیش کرتا ہوں‘‘. نبی اکرم نے جو نظام قائم کیا وہاں تک تو ابھی انسانی فکر پہنچ بھی نہیں سکی ہے. علامہ اقبال نے صورت حال کی صحیح صحیح تعبیر کرتے ہوئے کہا ہے: ؎ 

ہر کجا بینی جہانِ رنگ و بو
زاں کہ از خاکش بروید آرزو
یا زنورِ مصطفی ؐ او را بہا ست
یا ہنوز اندر تلاشِ مصطفی ؐ ست! 

(۱۳

گویا انسانیت کے دامن میں جو خیر اور بھلائی ہے وہ نور ِمصطفی ہی سے مستعار ہے‘ یا پھر انسانیت ابھی اس طرف جا رہی ہے جہاں محمد نے اسے چودہ سو برس پہلے ہی پہنچا دیا تھا. یہ ہے ارتقاء کی آخری منزل‘ لہذا فلسفہ ٔارتقاء کے حوالے سے بھی ’’نظام خلافت‘‘ کا احیاء لازمی ہے.