اب ہم ایک اور اعتبار سے غور کرتے ہیں. اس وقت دنیا میں نئے عالمی نظام کے بارے میں سوچا جا رہا ہے. خلیج کی جنگ کے بعد اس کا شور کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے. صنعتی اور سائنسی ترقی کی وجہ سے فاصلے معدوم ہو کر رہ گئے ہیں اور پوری دنیا نے ایک شہر کی حیثیت اختیار کر لی ہے. اسی وجہ سے سوچا جا رہا ہے کہ پوری دنیا کے لیے کوئی ایک نظام بھی تو ہونا چاہیے. اسی غرض سے پہلی جنگ عظیم کے بعد League of Nations وجود میں آئی تھی‘ لیکن چونکہ اس نظام کے لیے انسان کے پاس کوئی فکری بنیاد نہیں تھی ‘ لہذا وہ جلد ہی ناکام ہو گئی. (۱۴

’’انجمن اقوام‘‘ کی ناکامی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد ایک اور ادارہ تنظیم اقوام متحدہ (United Nations Organization) کے نام سے وجود میں آیا. یہ بھی عالمی نظام کے قیام کی ایک کوشش ہے. مگر یہ ادارہ بھی ناکام ہو چکا ہے. اب اس کی حیثیت امریکہ کے گھر کی لونڈی سے زیادہ نہیں. چنانچہ اب یہ نیو ورلڈ آرڈر آیا ہے‘ یہ بھی اسی ارتقاء کی طرف ایک پیش قدمی ہے. اگرچہ یہ نیا عالمی نظام ابھی تک پوری طرح جڑ نہیں پکڑ سکا‘ تاہم عالم اسلام پورے کا پورا اس کی گرفت میں آچکا ہے. البتہ چین‘ جاپان اور شمالی کوریا کو زیر نگیں کرنے میں کچھ وقت لگے گا.

یہ 
New World Order درحقیقت Jew World Order ہے. ۱۸۹۷ء میں پروٹو کولز کا جو نقشہ ’’صیہونی اکابر‘‘ (Elders of the Zion) نے بنایا (۱۵تھا‘ وہی تدریجاً روبعمل آ رہا ہے. ۱۹۱۷ء کا اعلانِ بالفور (۱۶پھر ۱۹۴۸ء میں اسرائیل کا قیام‘ ۱۹۶۷ء میں عربوں سے جنگ اور اسرائیل کی فتح‘ یہ سارے واقعات ایک تدریجی عمل کا حصہ ہیں. یہی وجہ ہے کہ ا سرائیل یروشلم کے سوا تمام معاملات پر گفتگو کے لیے تیار ہے. ’’جریکو میں اپنی قومی حکومت بنا لو‘‘.’’غزہ میں بھی self rule لے لو‘‘. غرض ’’سب کچھ منظور ہے‘ مگربات نہیں ہوگی تو یروشلم کے بارے میں‘ یہ ہمارا اٹوٹ انگ ہے.‘‘

میرے نزدیک تو شاید چند سال کی بات ہے کہ مسجد اقصیٰ گرائی جائے گی. یہود اس کی جگہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں. تقریباً دو ہزار سال سے ان کا یہ ’’کعبہ‘‘ گویا گرا پڑا ہے. اسرائیلی وہاں جاتے ہیں اور رو دھو کر واپس آ جاتے ہیں‘ وہاں جا کر دیوارِ گریہ سے سر ٹکراتے ہیں. اگرچہ یہ ٹکریں علامتی (symbolic) ہوتی ہیں‘ تاہم movement تو ایسی ہی بناتے ہیں جیسے کہ سچ مچ ہی ٹکریں مار رہے ہوں. اب وہ اسے تعمیر کریں گے. مسجد اقصیٰ اب ان کے لیے گرانا مشکل نہیں رہا‘ اس لیے کہ بابری مسجد گرا کر انہوں نے مسلمانوں کی نبض پر ہاتھ رکھ کر دیکھ لیا ہے کہ ان میں کوئی جان نہیں ہے. بس عالم عرب کے کچھ جوشیلے نوجوان احتجاج کے لیے کھڑے ہوں گے. انہیں بھوننے کے لیے اسرائیل کو اپنی گولیاں بھی ضائع کرنے کی ضرورت نہیں ہے. اس کے لیے حسنی مبارک موجود ہے‘ شاہ فہد صاحب ہیں‘ اور بھی جو اُر دن اور مراکش کے بادشاہ اور الجزائر کے ڈکٹیٹر ہیں. اس فہرست میں اب پی ایل او کے صدر یاسر عرفات کا اضافہ ہو گیا ہے. اس ساری گفتگو سے نتیجہ یہ نکال رہا ہوں کہNew World Order جو درحقیقت Jew World Order ہے وہ ایک دفعہ تو قائم ہوگا‘ لیکن قائم ہونے کے بعد اسے Just World Order of Islam میں بدلنااگلا قدم ہو گا.

اس تبدیلی کو ایک مثال سے سمجھ لیجیے. فرض کیجیے آپ کو سو آدمیوں کو مسلمان بنانے کی ذمہ داری سپرد کی گئی ہے. اب اگر یہ سو آدمی بالفرض ایک آدمی کی شکل اختیار کر لیں یا کسی ایک آدمی کا مسلمان ہونا سب کے مسلمان ہونے کا وسیلہ بن جائے تو آپ کا کام کتنا آسان ہو جائے گا. اس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھئے دنیا عالمی نظام کی طرف جا رہی ہے. اس کا مطلب یہ ہے کہ اس عالمی نظام کو اسلام کی طرف لانا صرف ایک 
shift over کی بات رہ جائے گی. اس طرح نبی اکرم کی دی ہوئی خبر کی صداقت ثابت ہو جائے گی. وہ اسلام کا عالمی نظام ہو گا اور اسی نظام کو حضور نے ’’خلافت علیٰ منہاجِ النبوۃ‘‘ کا نام دیا ہے.