اب تک جو کچھ بیان کیا گیا وہ بہت ہی خوش آئند ہے کہ اللہ کا دین پورے کرۂ ارض پر غالب ہو گا. لیکن اس عظیم کامیابی کی منزل تک پہنچنے سے پہلے کن تکلیف دہ حالات سے گزرنا ہو گا اور گوہر بننے سے قبل قطرے پر کیا کچھ گزرے گی‘ یہ دردناک باب ہے. اس کی خبریں بھی نبی کریم نے ہمیں دی ہیں. افسوس کہ ان احادیث کی طرف ہمارا رجحان ہی نہیں ہے. عوام کا تو خیر ذکر ہی کیا‘کئی علماء نے بھی مجھے بتایا کہ ’’یہ جو کتب احادیث کے آخر میں ’’کتاب الفتن‘‘ ‘’’کتاب الملاحم‘‘ اور ’’علامات الساعۃ‘‘ کے عنوان سے ابواب آتے ہیں ہم انہیں پڑھتے ہی نہیں. علماء کا سارا زور احادیث کے فقہی مباحث پر صرف ہو جاتا ہے. احادیث صحیحہ اور متواترہ میں جو خبریں اور پیشین گوئیاں موجود ہیں‘ ان سے صرف نظر کا کیا جواز ہے؟ بات یہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی علیہ اللعنہ نے احادیث ِنزولِ مسیح علیہ السلام کی جو توجیہہ کی اور پھر خود ہی مسیح بن بیٹھا‘ اس سے عام مسلمان کہتے ہیں کہ ان باتوں کو سرے سے چھوڑ ہی دو‘ ان میں پڑنے کی ضرورت کیا ہے جس سے اہل فتنہ فائدہ اٹھاتے ہیں. میرے نزدیک یہ باتیں جو نبی اکرم  نے فرمائی ہیں بہت اہم ہیں‘ ان سے استغناء برتنا گویا محمد رسول اللہ  کے مقام و مرتبہ کو کم کرنا ہے. بہرحال احادیث مبارکہ کی روشنی میں دیکھا جائے تو آنے والا وقت مغربی سامراج کی غلامی سے بھی زیادہ سخت ہو گا.

میں اپنی بات کو اگر ایک جملے میں بیان کروں تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ عالمی خلافت سے قبل دو مسلمان اُمتوں کو ان کی سزاؤں کی آخری قسط ملنی ہے. اس جملے کی مختصر تشریح کے سلسلے میں پہلا سوال تو یہی ہے کہ وہ دو مسلمان اُمتیں کون سی ہیں؟ ذرا سورۃ النور کی آیت ۵۵ جس کا حوالہ پہلے آ چکا ہے‘ اس پر ایک نظر ڈالیے. اس کے الفاظ اس طرح ہیں: 

… لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ … 
’’… ان کو زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے…‘‘

گویا پہلے بھی ایک اُمت ِمسلمہ تھی. اگر میری بات کا غلط مفہوم نہ لیا جائے تو کہوں گا کہ بعض اعتبارات سے سابقہ اُمت ِمسلمہ ہم سے افضل تھی‘ جس طرح جزوی فضیلت توکسی نبی کو حاصل ہو سکتی ہے‘ لیکن کلی اور مطلق فضیلت محمد عربی  ہی کو حاصل ہے. چنانچہ سابقہ امت مسلمہ کے لیے قرآن حکیم میں دو جگہ ارشاد ہو اہے: 
وَ اَنِّیۡ فَضَّلۡتُکُمۡ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ (البقرہ : ۴۷‘ ۱۲۲

’’میں نے تم کو تمام جہان والوں پر فضیلت دی.‘‘
جبکہ ہمارے لیے جو الفاظ آئے ہیں وہ صرف یہ ہیں:

وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنٰکُمۡ اُمَّۃً وَّسَطًا… (البقرہ : ۱۴۳)

’’اور ہم نے تم کو ’اُمت ِوسط‘ بنایا.‘‘
دونوں آیات کے تیور اور کلمات کے فرق کو دیکھئے!

اس کے علاوہ یہ پہلی اُمت وہ اُمت ہے جس میں ۱۴۰۰برس تک نبوت کا سلسلہ نہیں ٹوٹا. ۱۴۰۰قبل مسیح میں دو رسولوں حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام سے یہ سنہری زنجیر شروع ہوئی اور اس زنجیر کے اختتام پر بھی دو ہی نبی حضرت عیسیٰ اور حضرت یحییٰ علیہما السلام موجود تھے. اس سنہری زنجیر کے درمیان جب بھی کوئی نبی فوت ہوا تو کوئی نبی ہی اس کا جانشین بنا. اس سابقہ امت کی تاریخ ۲۴۰۰برس پر محیط ہے. ۱۴۰۰قبل مسیح میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تورات ملی تھی. بنی اسرائیل تو پہلے بھی موجود تھے. حضرت یوسف علیہ السلام نبی تھے. حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے درمیان کسی نبی کا تذکرہ نہیں ملتا‘ 
(۱۷لیکن بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے تو موجود تھے. پھر تورات ملنے کے بعد ان کو اُمت کی حیثیت حاصل ہو گئی. قرآن حکیم میں ارشاد ہے: 

وَ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ وَ جَعَلۡنٰہُ ہُدًی لِّبَـنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اَلَّا تَتَّخِذُوۡا مِنۡ دُوۡنِیۡ وَکِیۡلًا ؕ﴿۲﴾ (بنی اسرائیل )
’’اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اس (کتاب) کو بنی اسرائیل کا رہنما بنایا کہ (دیکھو) میرے سوا کسی کو سرپرست نہ بنانا.‘‘

گویا یہاں سے اُمت کی تاریخ شروع ہوتی ہے.اس اُمت کو ایک ہی کتاب نہیں دی گئی بلکہ کئی کتابیں دی گئیں. دو کتابیں تو وہ ہیں جن پر ہمارا بھی ایمان ہے‘ زبور اور انجیل ان کے علاوہ متعدد صحیفے بھی عطا کیے گئے.
یہ ہے وہ سابقہ اُمت ِمسلمہ جس کی فضیلت کے لیے قرآن حکیم میں مذکورہ بالا 
آیت دو مقام پر آئی ہے. بالکل اسی طرح دو ہی دفعہ یہ مضمون بھی آیا ہے:

وَ ضُرِبَتۡ عَلَیۡہِمُ الذِّلَّۃُ وَ الۡمَسۡکَنَۃُ ٭ وَ بَآءُوۡ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ ؕ (البقرۃ:۶۱)

’’ان پر ذلت و مسکنت تھوپ دی گئی اور وہ اللہ کا غضب لے کر لوٹے.‘‘
یہی مضمون سورۂ آل عمران (آیت ۱۱۲) میں الفاظ کی ذرا سی تبدیلی کے ساتھ آیا ہے. 
ایک طرف ان کو یہ فضیلت دی گئی اور دوسری طرف وہی قوم مغضوب و ملعون قرار پا گئی. سورۃ الفاتحہ کے کلمات 
’’الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ‘‘ کی تفسیر میں سب متفق ہیں کہ ان سے مراد یہود ہیں اور’’الضَّالِّیْنَ‘‘ سے مراد نصاریٰ ہیں. قرآن حکیم میں آتاہے: 

لُعِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡۢ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ وَ عِیۡسَی ابۡنِ مَرۡیَمَ ؕ (المائدہ : ۷۸)
’’داؤد اور عیسیٰ ابن مریم کی زبانی بنی اسرائیل میں سے ان لوگوں پر لعنت کی گئی جنہوں نے کفر کیا.‘‘

سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ دراصل اللہ تعالیٰ کے عذاب کے کچھ قوانین ہیں جن کو سمجھ لینا ضروری ہے. اللہ تعالیٰ کے قانونِ عذاب کے سلسلہ میں پہلی بات یہ ہے کہ یہ دنیا افراد کے لیے دارالجزاء نہیں ہے‘ جب کہ قوموں کے لیے دارالجزاء ہے. افراد کے لیے عذاب و ثواب کا فیصلہ آخرت میں ہو گا. آخرت میں ہر شخص انفرادی حیثیت میں آئے گا‘ لیکن اقوام کے گناہوں کا حساب اکثر و بیشتر اس دنیا میں ہی چکا دیا جاتا ہے. بقول علامہ اقبال: ؎ 
فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
نہیں کرتی کبھی ملت کے گناہوں کو معاف!

قوموں پر دو طرح کے عذاب آتے ہیں. ایک بڑا عذاب‘ جسے قرآن مجید ’’العذاب الاکبر‘‘ کہتا ہے‘ اسے عذاب استیصال بھی کہہ سکتے ہیں. اس عذاب میں قوموں کا نام و نشان مٹا دیا جاتا ہے. یوں لگتا ہے کہ جیسے وہ کبھی تھے ہی نہیں. یہ عذاب صرف اُن قوموں پر آتا ہے جن کی طرف کسی رسول کو مبعوث کیا گیا ہو اور قوم نے بحیثیت مجموعی رسول کی دعوت کو ٹھکرا دیا ہو. قومِ نوحؑ ‘ قومِ صالح ؑ‘ قوم ہودؑ‘ قومِ شعیبؑ ‘ قومِ لوطؑ اور آلِ فرعون اسی عذابِ استیصال سے دوچار ہوئے. اور یہ چھ مثالیں قرآن مجید میں پندرہ مرتبہ بیان کی گئی ہیں. ّ

اس سے کم درجے کا عذاب آتا ہے اس مسلمان اُمت پر جو زمین پر اللہ کی نمائندہ ہونے‘ حامل کتابِ الٰہی ہونے اور وارثِ علومِ نبوت ہونے کے باوجود اپنے عمل سے اپنے دعووں کی تکذیب شروع کر دے. ظاہر ہے کہ اس سے بڑا مجرم کوئی نہیں. باقی نوعِ انسانی کی گمراہی اور جرائم کی ذمہ دار بھی یہی قرار پاتی ہے‘ کیونکہ پیغامِ حق پہنچانا اس کا فرض تھا. اگر وہ یہ پیغام حق بے کم و کاست پہنچا دیتی اور پھر دنیا نہ مانتی تب تو انکار کرنے والے مجرم قرار پاتے اور وہ اُمت بریٔ الذمہ سمجھی جاتی. مگر جب اس اُمت ِمسلمہ نے پہنچانے کا فرض ادا نہیں کیا تو اب مجرم وہ خود بن گئی کہ اللہ کی زمین پر اس کی نمائندگی کی دعویدار بھی ہے اور عمل اس کے برعکس ہے. اس سے بڑا جرم اور کوئی نہیں. اسی کی پاداش میں وہ عذاب ہے جو بنی اسرائیل پر آیا اور جو اُمت محمد پر آیا.
اس موقع پر میں ایک عظیم حدیث مبارکہ کا حوالہ دینا چاہتا ہوں‘ جودراصل بہت بڑے خزانے کی کلید ہے. یہ حدیث سنن الترمذی میں وارد ہوئی ہے اور اس کے راوی حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما ہیں. وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ  نے فرمایا: ’’میری اُمت پر وہ سارے حالات وارد ہو کر رہیں گے جو بنی اسرائیل پر وارد ہوئے‘ بالکل ایسے جیسے ایک جوتی کا تلا دوسری جوتی کے بالکل مشابہ اور برابر ہوتا ہے.‘‘ حضور کی فصاحت و بلاغت کی ا نتہا ہے. جوتی کا جوڑا اگر اوپر سے دیکھا جائے تو ان کے چھوٹے بڑے ہونے کا فرق نظر نہ آئے گا‘ لیکن جب ان کے تلے جوڑ کر دیکھا جائے گا تو جوڑی کا فرق معلوم ہو جائے گا‘ اور اگر صحیح جوڑی ہوئی تو دونوں کے تلووں میں کوئی فرق نہ ہو گا.
تاریخ کے مطالعہ سے اس حدیث کے کلید ہونے کی حیثیت بالکل واضح ہو جاتی 
ہے. نبی  کی بعثت تک بنی اسرائیل پر دو عروج کے دور آ چکے تھے اور زوال کے بھی دو ہی دور بیت چکے تھے. سورۂ بنی اسرائیل کے پہلے رکوع میں ان دو ادوار کا ذکر ہے. فرمایا:

وَ قَضَیۡنَاۤ اِلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ فِی الۡکِتٰبِ لَتُفۡسِدُنَّ فِی الۡاَرۡضِ مَرَّتَیۡنِ وَ لَتَعۡلُنَّ عُلُوًّا کَبِیۡرًا ﴿۴

پہلے آشوریوں کے ہاتھوں اسرائیل کی حکومت ختم ہوئی. اس کے بعد کلدانیوں کے ہاتھوں تباہی آئی. چھ سو برس قبل مسیح بخت نصر کے ہاتھوں چھ لاکھ انسان یروشلم میں قتل ہوئے اور چھ لاکھ کو وہ قیدی بنا کر لے گیا. یروشلم میں ایک متنفس نہیں چھوڑا. ہیکل سلیمانی کو مسمار کر کے ہموار کر دیا. اس کی بنیادیں تک کھود کر پھینک دیں.ا س کے بعد حضرت عزیر علیہ السلام نے توبہ کی دعوت و منادی دی‘ جس پر یہ جاگے اور اللہ کے حضور توبہ کی. تب سائرس کے ہاتھوں اللہ نے انہیں بابل کی اسیری سے نجات دلائی. اس کے بعد یہ یروشلم آئے اور ہیکل سلیمانی‘ جو اُن کے ہاں کعبے کا درجہ رکھتا ہے‘ دوبارہ تعمیر کیا. یہ ان کا دوسرا دورِ عروج ہے. لیکن انہوں نے پہلے کی طرح پھر کتاب اللہ کو پیٹھ دکھائی‘ عیاشیوں اور بدمعاشیوں میں مبتلا ہوئے اور طاؤس و رباب میں غرق ہو کر تباہی کے اسی راستے پر چل پڑے جس کو علامہ اقبال نے یوں بیان کیا ہے: ؎

میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر اُمم کیا ہے
شمشیر و سناں اوّل‘ طاؤس و رباب آخر! 

لہذا پھر عذاب کا کوڑا برسا. یہ عذاب کا کوڑا پہلے یونانیوں‘ پھر رومیوں کے ہاتھوں برسا. پہلے دور میں سزا آشوریوں کے ہاتھوں آئی جو شمال سے آئے تھے‘ پھر مشرق سے کلدانی آئے. بخت نصر بابل کا بادشاہ تھا. دوسرے دور میں پہلے عذاب کے کوڑے یونانیوں کے ہاتھوں برسے اور پھر رومیوں کے ہاتھوں. ۷۰ء میں ٹائیٹس رومی نے جو حملہ کیا اس میں ایک لاکھ تینتیس ہزار یہودی ایک دن میں قتل ہوئے‘ باقی یہودیوں کو وہاں سے نکال باہر کیا. اس وقت کے بعد سے اب جا کر اس صدی میں انہیں اپنا گھر نصیب ہوا ہے. یروشلم میں ان کا داخلہ بند تھا. جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں بیت المقدس فتح ہوا تب جا کر انہیں یروشلم میں داخلے کی اجازت ملی. حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے ’’open city‘‘ قرار دیا‘ ورنہ پورے ساڑھے پانچ سو برس تک کوئی یہودی اپنے مقدس شہر میں داخل بھی نہ ہو سکتا تھا. بہرحال یہ ہے اُس وقت تک کی تاریخ جب آنحضرت  کی بعثت ہوئی.