بنی اسرائیل کے عذاب ِاستیصال میں تاخیر کی وجہ

حضرت مسیح علیہ السلام ان کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے تھے.سورۂ آل عمران (آیت ۴۹) میں ہے: وَ رَسُوۡلًا اِلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ’’بنی اسرائیل کی طرف بھیجے گئے رسول‘‘.انہوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کی دعوت کو رد کر دیا‘ بلکہ اپنی طرف سے تو گویا ان کو سولی پر چڑھا دیا. یہ الگ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے ان کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا. لہذا اسی وقت سے یہ قوم عذابِ استیصال کی مستحق ہو چکی ہے. سورۂ بنی اسرائیل ہی کے دوسرے رکوع میں آیا ہے:

وَ مَا کُنَّا مُعَذِّبِیۡنَ حَتّٰی نَبۡعَثَ رَسُوۡلًا ﴿۱۵﴾ (بنی اسرائیل )

’’ہم اس وقت تک عذابِ (استیصال) نہیں نازل کرتے جب تک ہم اپنا رسول نہ بھیج دیں.‘‘
جیسا کہ واضح کیا گیاکہ رسول آ چکا اور انہوں نے اس کو رد بھی کر دیا‘ لیکن ایک خاص سبب سے اس قوم پر اس طرح کے عذاب کی نہ اس وقت تنفیذ ہوئی نہ اب تک ہوئی. بات یہ ہے کہ قرآنِ حکیم نے نبی  کی بعثت کی شکل میں ان کے لیے ایک رحم کی اپیل 
(mercy appeal) کا موقع پیدا کیا. چنانچہ سورۂ بنی اسرائیل میں ارشاد ہوا ہے: 

عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یَّرۡحَمَکُمۡ ۚ وَ اِنۡ عُدۡتُّمۡ عُدۡنَا ۘ وَ جَعَلۡنَا جَہَنَّمَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ حَصِیۡرًا ﴿۸﴾اِنَّ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ یَہۡدِیۡ لِلَّتِیۡ ہِیَ اَقۡوَمُ وَ یُبَشِّرُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ الَّذِیۡنَ یَعۡمَلُوۡنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمۡ اَجۡرًا کَبِیۡرًا ۙ﴿۹﴾ 

یعنی اب بھی دامن ِمحمد  میں پناہ لے لو‘ قرآن پر ایمان لے آؤ جو ہر معاملے میں سیدھا راستہ دکھانے والی کتاب ہے‘ ہم اب بھی تم پر رحم فرمانے کے لیے تیار ہیں. افسوس! یہود نے اسmercy appeal کا موقع بھی گنوا دیا‘ لیکن اس کے باوجود ’’العذاب الاکبر‘‘ کی execution نہیں ہوئی. کیوں نہیں ہوئی؟ یہ اس داستان کا تلخ حصہ ہے. اس لیے کہ پہلے موجودہ مسلمان اُمت کے افضل حصے(عالم عرب) کی پٹائی اس مغضوب اور ملعون قوم کے ہاتھوں کروانی ہے.