اس ضمن میں جو تلخ ترین بات مجھے کہنی ہے وہ یہ ہے کہ اس کی ’’کاربن کاپی‘‘ ابھی اُمت مسلمہ پر آنے والی ہے‘ اس لیے کہ حضور کی حدیث جھوٹی نہیں ہو سکتی. یہ صحیح ہے کہ اللہ نے ہم کو مغربی استعماریت سے نجات دلا دی ہے‘ لیکن ہم اب زیادہ بڑے امتحان میں ڈال دیے گئے ہیں. پہلے تو (بطور عذر) ہم کہہ سکتے تھے کہ ہم انگریزوں‘ فرانسیسیوں اور اطالویوں کے غلام ہیں‘ اب تو غلامی ختم ہو گئی ہے. لیکن غلامی کے خاتمے کے باوجود دنیا میں کوئی مسلمان ملک بھی ایسا نہیں ہے جس نے اس نظام کو قائم کر لیا ہو جو محمد رسول اللہ کی امانت و وراثت کی حیثیت سے ہمارے پاس ہے. لہذا امتحان میں اس ناکامی کا نتیجہ تو نکلنا ہی ہے.

خروجِ دجال بھی سامنے کی بات ہے. یہودیوں کو ابھی عظیم تر اسرائیل قائم کرنا ہے. اس کے نقشے میں تقریباً آدھا جزیرہ نمائے عرب موجود ہے. مدینہ سمیت سعودی عرب کے کچھ حصے اور مصر کے پورے زرخیز علاقے پر ان کا دعویٰ ہے. عراق میں وہ اسیری میں رہے ہیں اس لیے اس پر بھی ان کا دعویٰ ہے اور شام تو ان کی ارضِ موعود ہے. ترکی کا مشرقی حصہ بھی ان کے نقشے میں شامل ہے. ایک طرف ان کے یہ عزائم ہیں اور دوسری طرف کوئی مزاحمت سرے سے موجود ہی نہیں. عالم عرب میں سے کس میں دم ہے؟ عراق کے کچھ ’’ایٹمی دانت‘‘ نکلنے کا اندیشہ ہو گیا تھا‘ لہذا اسرائیل نے سعودی عرب کی فضائی حدود سے گزر کر عراق کے ایٹمی ری ایکٹر تباہ کر دیے اور جو کسر باقی رہ گئی تھی وہ خلیج کی جنگ میں نکل گئی. امریکی فوجی جنرل شواز کوف نے صاف کہا ہے کہ ہم نے یہ جنگ لڑی ہی اسرائیل کی حفاظت کے لیے ہے.