ان تین صورتوں میں سے خواہ کوئی بھی پیش آئے‘ مجھے یقین ہے کہ انشاءاللہ خلافت کا احیاء اسی خطے سے ہو گا. ایک سوال کا جواب میرے پاس نہیں ہے کہ یہ احیاء کب ہو گا؟ میں کیا جواب دوں گا‘ جب کہ قرآن نے خود حضور  سے کہلوا دیا: 

وَ اِنۡ اَدۡرِیۡۤ اَقَرِیۡبٌ اَمۡ بَعِیۡدٌ مَّا تُوۡعَدُوۡنَ ﴿۱۰۹﴾ (الانبیاء) ’’اورمیں نہیں جانتا کہ (جس بات کی تمہیں خبر دی جا رہی ہے) جو وعدہ تم سے کیا جا رہا ہے وہ قریب ہے یادور.‘‘
اسی طرح سورۃ الجن میں آیا ہے:

قُلۡ اِنۡ اَدۡرِیۡۤ اَقَرِیۡبٌ مَّا تُوۡعَدُوۡنَ اَمۡ یَجۡعَلُ لَہٗ رَبِّیۡۤ اَمَدًا ﴿۲۵﴾ 

’’مجھے معلوم نہیں ہے کہ (جو خبر تم کو دی جا رہی ہے) جو وعدہ تم سے کیا جا رہا ہے وہ قریب آ چکا ہے یا ابھی اس میں تمہارا رب کوئی تاخیر کرے گا.‘‘

اسی خطے سے نظامِ خلافت کے اِحیاء کا یقین مجھے بہرحال حاصل ہے. اب میں اس کی تائید میں دو حدیثیں پیش کر رہا ہوں. ایک حدیث امام ابن ماجہ ؒ نے حضرت عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے:
’’مشرق سے فوجیں نکلیں گی جو مہدی کی حکومت قائم کرنے کے لیے منزل پر منزل مارتی چلی آئیں گی.‘‘

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مشرق کے کسی علاقے میں وہ نظام خلافت پہلے قائم ہو چکا ہو گا. دوسری حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور اس کو امام ترمذی ؒ نے روایت کیا ہے:

’’خراسان کی جانب سے علم چلیں گے‘ ان کو کوئی روک نہ سکے گا جب تک کہ وہ ایلیاء میں جا کر نصب نہ ہو جائیں.‘‘ 
(حضور  کے زمانے میں یروشلم کا نام ایلیاء تھا) خراسان اس علاقے کا نام ہے جس کا کچھ حصہ اس وقت پاکستان میں ہے اور زیادہ حصہ افغانستان میں ہے. گویا یہی علاقے ہیں جہاں سے خلافت کا آغاز ہو گا.

بظاہر بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آتی‘ کیونکہ عربوں کے بعد سب سے بڑی مجرم قوم ہم مسلمانانِ پاکستان ہیں. اس وقت پاکستان ننگے سیکولرازم کی طرف جا رہاہے‘ حتیٰ کہ قومی شناختی کارڈ پر مذہب کا خانہ تک درج نہ ہو سکا ‘اس لیے کہ یہ بات عیسائیوں کو پسند نہ تھی‘ یہاں تک کہ مذہب کا خانہ ختم کرانے کے لیے پوپ صاحب بھی بول پڑے. یہ سب اس ملک میں ہو رہا ہے جو اسلام ہی کے نام پر معرضِ وجود میں آیاتھا. جیسا کہ اس سے پہلے واضح کر چکا ہوں کہ کتب احادیث میں ’’کِتَابُ الْفِتَن و کِتَابُ اْلمَلَاحم‘‘ سے مراد جنگوں کا باب ہے. ان میں خاص طور پر ’’اَلْمَلْحَمَۃُ الْعُظْمٰی‘‘ کا ذکر ملتا ہے جو تاریخ انسانی کی عظیم ترین جنگ ہوگی. اس کے علاوہ احادیث میں علاماتِ قیامت‘ خروجِ دجال‘ عرب میں قیادتِ مہدی کا ظہور‘ مشرق سے فوجوں کی آمد‘ آسمان سے حضرت مسیح ؑکا نزول‘ اس کے نتیجے میں یہود کا استیصال اور پھر عالمی سطح پر اسلام کے نظام خلافت علیٰ منہاجِ النبوۃ کے قیام کی پیشین گوئیاں موجود ہیں. میں نے اس سے پہلے بھی کہا ہے کہ یہ وہ حالات ہیں جو میرے اندازے میں تو زیادہ دُور نہیں ہیں. قرائن و شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ معاملہ بہت قریب پہنچ چکا ہے.ذاتِ باری تعالیٰ کو کس نے دیکھا ہے‘ بس اس کی آیات ہی سے تو اسے پہچانا جاتا ہے ؎ 

حق مری دسترس سے باہر ہے 
حق کے آثار دیکھتا ہوں میں! 

اسی طرح جو پیش آنے والے حالات ہیں اور قیامت سے قبل کی جو علامات ہیں‘ نبی اکرم نے ان کو وضاحت سے بیان فرما دیا ہے. چنانچہ دیکھنے والے ان کو دیکھ رہے ہیں. محسوس ہوتا ہے جیسے بساط بچھ رہی ہے‘ جیسے کسی ڈرامے کے لیے سٹیج تیار کیا جاتا ہے اور سامان فراہم کیا جاتا ہے.

جو کچھ پیش آنے والا ہے وہ در حقیقت دو مسلمان اُمتوں کی سزاؤں کی آخری قسطیں ہیں جو کہ اب آنے والی ہیں.