ایک اصولی بات اور سمجھ لی جائے کہ تاریخ میں جو بڑے بڑے حادثات و واقعات رونما ہوتے ہیں ان کا ایک ظاہر ہوتا ہے اور ایک باطن. ظاہر میں کون کون سی قوتیں اور عوامل کار فرما ہیں‘ باطن میں اصل حقیقت کیا ہے اور مشیت ِایزدی کس طور سے اپنا ظہور کر رہی ہے‘ یہ دو چیزیں بالکل علیحدہ علیحدہ ہیں. بسا اوقات ظاہری اعتبار سے جن چیزوں اور واقعات و حادثات کی بہت اہمیت ہوتی ہے‘ باطنی اعتبار سے ان کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی. اسی طرح باطنی اعتبار سے جن امور کی اہمیت ہوتی ہے وہ ظاہری اعتبار سے اہمیت کے حامل نظر نہیں آتے. اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ جن حالات میں نبی اکرم  کی بعثت ہوئی ہے‘ اُس وقت کی دنیا نے اس واقعہ کی اہمیت کو کیا سمجھا ہو گا؟ دنیا کے ایک چھوٹے سے کونے میں‘ جزیرہ نمائے عرب کے لق و دق صحرا میں بظاہر ایک چھوٹا سا واقعہ ہوا‘ پھر اس واقعہ نے آگے چل کر وہاں انقلاب برپا کر دیا.

مگر دنیا پر اس کا یا اس کے نتیجے میں برپا ہونے والے انقلاب کا فوری اثر کیا ہوا ہو گا؟ مشرق سے مغرب تک پھیلی ہوئی دنیا میں آباد انسانوں کی اکثریت نے اس کا کیا نوٹس لیا ہو گا؟ لیکن معنوی اعتبار سے یہ کتنا اہم واقعہ تھا. حضور  کی بعثت انبیاء و رسل کے سلسلہ کا خاتمہ اور تکمیل ہے. اس بعثت کی وجہ سے روئے ارضی پر کتنا بڑا انقلاب برپا ہوا! اگرچہ اِس وقت کے حالات و واقعات میں کچھ دوسری قوتیں زیادہ مؤثر نظر آتی ہیں‘ حقیقت میں باطنی معاملہ تو ’’مشیت ِایزدی‘‘ کا ہے. اللہ تعالیٰ کا جو قانون ہے‘ اس کی جو سنت ہے ‘یہ واقعہ اس کا ظہور ہے ‘اور جیسا کہ اس سے قبل کہا گیا‘ مسلمان اُمتوں پر بھی عذاب آتا ہے اور کافروں سے بڑھ کر عذاب آتا ہے‘ مگر کفار کے ضمن میں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ وہ کافر جن کی طرف براہ راست کوئی رسول آیا ہو‘ اور رسول کی طرف سے اتمام حجت کے باوجود وہ ایمان نہ لائیں تو ایسے کافروں کو کوئی رعایت نہیں ملتی. لیکن ان کے علاوہ وہ کفار جن پر کسی رسول نے براہِ راست حجت پوری نہیں کی ان پر دنیا میں کوئی عذاب نہیں آتا‘ ان کا سارا معاملہ آخرت میں ہی چکایا جائے گا. اس دنیا میں سزا رسولوں کی اُمتوں کو ان کے اعمال اور قول و فعل کے تضاد کی بنیاد پر ملتی ہے. سورۃ الصف میں ارشاد ہوتا ہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ ﴿۲﴾کَبُرَ مَقۡتًا عِنۡدَ اللّٰہِ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ ﴿۳
’’اے اہل ایمان! کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں. ناراضی کے لحاظ سے اللہ کے نزدیک یہ بات بہت بڑی ہے کہ وہ کہو جو کرتے نہیں ہو.‘‘

اس بات کا تجزیہ کرنا مشکل نہیں ہے. ایک قوم مدعی ہے کہ ہم اللہ کو مانتے ہیں‘ اس کے رسول کو مانتے ہیں‘ اس کی کتاب کو مانتے ہیں اور اس کی شریعت کو مانتے ہیں‘ مگر یہ سب کچھ ماننے کے بعد عمل نہیں کرتے یا عمل کرتے ہیں تو جزوی طور پر (۱۹. اپنے اس طرزِ عمل کی وجہ سے وہ مسلمان اُمت جو زمین پر اللہ کی نمائندگی کے منصب پر فائزتھی اس نے اُلٹی نمائندگی شروع کر دی ہے تو یہ اُمت اب خالق اور مخلوق کے درمیان حجاب بن گئی ہے. دنیا ان کو دیکھتی ہے اور انہی کے حوالے سے دین کو سمجھتی ہے. اس وقت یہ اُمت مخلوقِ خدا کو دین کی طرف لانے کے بجائے اس سے لوگوں کو متنفر کر رہی ہے.

اپنے اس طرزِ عمل اور غلط نمائندگی کے باعث یہ کافروں سے بڑھ کر مجرم اور زیادہ شدید سزا کی مستحق بن چکی ہے. یہی وجہ ہے کہ اُمت ِمحمد  کی پٹائی ایک مغضوب اور ملعون قوم (۲۰کے ہاتھوں ہو رہی ہے اور مزید ہو گی.