یہود کے خواب اور ان کی تعبیر

یہود کے عزائم کو میں تفصیل سے بیان کر چکا ہوں. ہمارے ایک ساتھی نے‘ جو پی آئی اے میں کام کرتے ہیں‘ ایک چونکا دینے والی بات بتائی. پچھلے دنوں وہ اپنی فلائٹ پر بنکاک گئے ہوئے تھے. وہاں ٹیلی ویژن پر ایک فلم "Stories of the Bible" دکھائی جا رہی تھی.اس فلم میں تاریخی دلائل و شواہد اور اعداد و شمار پیش کیے گئے ہیں. اس کے ذریعے یہودی یہ پرچار کر رہے ہیں کہ ان کا ’’تابوتِ سکینہ‘‘(۲۱مسجد اقصیٰ کے نیچے ایک سرنگ میں موجود ہے. جب بخت نصر نے ہیکل سلیمانی منہدم کیا تھا‘ یہود کے دعویٰ کے مطابق وہ اُسی وقت سے یہاں دفن ہے. اسی لیے یہود اسے دوبار نکالنے کی کوشش بھی کر چکے ہیں. اس میں تو وہ ناکام رہے مگر اب بڑی تیزی سے اس طرف جا رہے ہیں کہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر اور ’’تابوتِ سکینہ‘‘ کی تلاش میں مسجداقصیٰ کو منہدم کیا جائے. اسرائیل کی سپریم کورٹ فیصلہ دے چکی ہے کہ ’’یروشلم‘‘ اسرائیل کا ’’اٹوٹ انگ‘‘ ہے.

حالات اب روزِ روشن کی طرح واضح ہو رہے ہیں. جو لوگ احادیث ِصحیحہ سے‘استغناء برتتے ہیں ان کی حالت پر مجھے بڑا افسوس ہوتا ہے. اب تو حقائق حدیث مبارکہ کی تشبیہہ ’’مثل فلق الصبح‘‘ (۲۲)یعنی صبح صادق کی طرح کھل کر سامنے 
آ گئے ہیں. 

یہود کی جو سزا مؤخر تھی اس کی تنفیذ کا وقت بھی قریب آ چکا ہے. میں ان حقائق کو حکمت قرآن کی بنیاد پر مانتا ہوں. احادیث ان کی تائید کرتی نظر آتی ہیں. علاوہ ازیں عقل و منطق بھی اسی بات کی تائید کرتی ہے. آپ غور کریں کہ یہود کوکون ختم کر سکتا ہے؟ اسرائیل کے پاس کتنے ایٹم بم موجود ہیں؟ مسلمان ممالک میں سے کسی کے پاس ایک بھی نہیں. دنیا کو پاکستان پر کچھ شک ہونے لگا ہے کہ اس کے پاس ’’اسلامک بم‘‘ ہے. امریکی سینیٹرز بھی آ کر کہہ گئے ہیں کہ ہمیں ’’اسلامک بم‘‘ سے بہت خوف آتا ہے. لہذا اسرائیل اور یہود کو تو وہی آخری درجے کے معجزے ختم کر سکتے ہیں جو حضرت مسیح ؑکو دیے گئے ہیں. اسی لیے حدیث میں آیا ہے کہ حضرت مسیحؑ کی نگاہ جہاں تک جائے گی یہودی پگھلتے چلے جائیں گے. یہ الفاظ بھی حدیث میں ہیں کہ اگر کوئی یہودی کسی پتھر کے پیچھے چھپے گا تو وہ پتھر بھی پکارے گا کہ ’’اے روح اللہ! یہ میرے پیچھے ایک یہودی چھپا ہوا ہے‘‘. تو گویا ایک دفعہ ’’گریٹر اسرائیل‘‘ قائم ضرور ہو گا‘ مگر پھر وہی ان کا ’’Greater Graveyard‘‘ بھی بنے گا. 

یہ بات بھی عقل و منطق کے عین مطابق ہے. یہود کا ’’دورِ انتشار‘‘ ۷۰ء سے شروع ہوا تھا ‘جس کے بعد یہود پوری دنیا میں دربدر ہو گئے تھے‘ جہاں جس کے سینگ سمائے چلا گیا‘ لیکن مختلف ممالک میں پہنچ کر انہوں نے اپنے اڈے بنا لیے اور جم کر بیٹھ گئے. اب یہود کو ختم کرنے کے لیے یا تو پوری دنیا پر عذاب لایا جائے یا ان سب کو کہیں سمیٹ کر ایک جگہ جمع کر دیا جائے. یہی دو صورتیں ہو سکتی ہیں.

اسرائیل کے قیام کے بعد سے انہیں بظاہر مسلسل فتوحات حاصل ہو رہی ہیں. ان کے ہاتھوں عرب مسلمان پٹ رہے ہیں. لیکن درحقیقت مشیت ِایزدی اس طرح تمام کوڑے کرکٹ کو جھاڑو دے کر ایک جگہ جمع کر رہی ہے‘ تاکہ سب کو ایک ساتھ دیاسلائی دکھائی جا سکے. یہ بات سورۂ بنی اسرائیل میں موجود ہے. پہلے رکوع میں تاریخ بنی اسرائیل کے چار ادوار کا ذکر ہے‘ جب کہ آخری رکوع میں فرمایا:

فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ جِئۡنَا بِکُمۡ لَفِیۡفًا ﴿۱۰۴﴾ؕ

’’جب آخرت والے وعدے کا وقت آئے گا تو ہم تم سب (یہود) کو لپیٹ کر لے آئیں گے.‘‘
دیکھ لیجیے! پوری دنیا سے یہودی اسرائیل کا رخ کر رہے ہیں ـ . ظاہر ہے کہ سب کے سب موجودہ اسرائیل میں تو نہیں سما سکتے‘لہذا ’’گریٹر اسرائیل‘‘ وجود میں لایا جائے گا. 

ان تمام حقائق کے بارے میں اب کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے‘ لیکن عہد ِحاضر میں احادیث ِنبویہؐ سے جدید تعلیم یافتہ طبقہ جو استغناء برت رہا ہے‘ وہ فتنہ ٔانکارِ سنت اور فتنۂ قادیانیت کا نتیجہ ہے. اسے ہم ’’اعتزالِ جدید‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں. چنانچہ روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ میں جب میرے مضامین شائع ہو رہے تھے تو ان کے حوالے سے ایک لمبا چوڑا خط میرے پاس امریکہ سے آیا. خط میں کہا گیا تھا کہ آپ پیشین گوئیوں کی باتیں کر رہے ہیں!! اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ مسلمان ان کے انتظار میں ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھے رہیں! ان صاحب سے جب خط و کتابت کا سلسلہ چلا تو معلوم ہوا کہ وہ قادیانی ہیں. میں نے انہیں جواباً لکھا کہ پیشین گوئیاں صرف احادیث میں نہیں قرآن میں بھی تو ہیں.

سورۃ الروم کی ابتدائی آیات پیشین گوئی پر مبنی نہیں؟ اس پیشین گوئی میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ اس وقت رومی قریب کی سرزمین میں مغلوب ہو گئے ہیں‘ لیکن چند سال کے اندر اندر وہ دوبارہ غالب آ جائیں گے اور اس دن مؤمن بھی اللہ کی دی ہوئی فتح پر خوش ہوں گے. یہ پیشین گوئی نو سال میں پوری ہو گئی. ایک طرف ہرقل نے یروشلم دوبارہ فتح کر لیا اور ایرانیوں کو شکست فاش دی‘ دوسری طرف بدر میں مسلمانوں کو اللہ نے فتح عظیم اور یومِ فرقان (حق و باطل میں فرق کرنے والا دن) عطا فرمایا. یہ پیشین گوئی نو سال بعد حرف بہ حرف پوری ہوئی. کیا نو سال تک مسلمان ہاتھ پیر توڑ کر بیٹھ گئے تھے اور پیشین گوئی پوری ہونے کا انتظار کرتے رہے تھے؟ نہیں! اس کے برعکس ہوا یہ کہ نبی اکرم اور آپ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ماریں کھائیں‘ ہجرت کی‘ اہل و عیال کو انسان نما بھیڑیوں کے رحم وکرم پر چھوڑ کر مدینہ کا رخ کیا اور پھر تین سو تیرہ… پندرہ سال کی محنت شاقہ کا حاصل… آپؐ نے میدان میں لا کر ڈال دیے‘ تب فتح مبین حاصل ہوئی.

اب بھی جو کچھ ہو گا‘ محنت و کوشش سے ہو گا. جن کو توفیق ملے گی وہ اس کام میں لگ جائیں گے. چنانچہ قرآن کی پیشین گوئیوں کی طرح محمد رسول اللہ  نے بھی پیشین گوئیاں فرمائی ہیں‘ مگر نہ قرآنی پیشین گوئیوں کا مطلب ہاتھ پیر توڑ کر بیٹھ جانا تھا اور نہ احادیث میں وارد پیشین گوئیوں کا یہ مطلب ہے.