حالات کے پیش نظر ہمارے دین میں ’’اجتہاد‘‘ کا باقاعدہ ادارہ رکھا گیا ہے تاکہ "We can move with the movement of time" .تاہم اجتہاد کا مطلب fundamentals سے روگردانی نہیں،ہمیں کسی معذرت کے بغیر ڈٹ کر کہنا چاہیے کہ ہم fundamentalists ہیں‘ مگر اس اصطلاح کا ترجمہ ’’بنیاد پرست‘‘ غلط ہے. پرستش تو ہم اللہ کے سوا کسی کی نہیں کر سکتے. چنانچہ ہم اپنی بنیادوں کی پرستش تو نہیں کرتے‘ لیکن ہم ان کو برقرار بھی رکھیں گے اور ان کا پرچار بھی کریں گے.

اسی کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ زمانہ کبھی رُکتا نہیں ہے ‘بلکہ وہ ارتقاء پذیر ہے. ؎

جو تھا نہیں ہے‘ جو ہے نہ ہو گا
یہی ہے اک حرفِ محرمانہ

اور واقعہ یہی ہے کہ ؏ ’’ثبات اِک تغیر کو ہے زمانے میں!‘‘لہذا دیکھنا یہ ہے کہ اس بدلتے ہوئے زمانے کے چیلنج کا سامنا کرتے ہوئے خلافت کی شکل کیا ہو گی؟
میں اس 
fundamentalism کی مثال قرآن سے لیا کرتا ہوں. قرآن حکیم میں کلمۂ طیبہ کی مثال بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے:

اَلَمۡ تَرَ کَیۡفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصۡلُہَا ثَابِتٌ وَّ فَرۡعُہَا فِی السَّمَآءِ ﴿ۙ۲۴﴾ (ابراھیم) 

’’کیا تم نے یہ نہیں دیکھا کہ اللہ نے کلمۂ طیبہ کی مثال بیان کی‘ جیسے ایک پاکیزہ درخت جس کی جڑ مضبوط ہے اور جس کی شاخیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں.‘‘

ظاہر ہے درخت اگرچہ صرف جڑ کا نام نہیں ہے بلکہ درخت میں تنا بھی ہے اور شاخیں بھی ہیں. آخر برگ و بار شاخوں میں ہی لگیں گے نہ کہ جڑ کے ساتھ. اس کے باوجود جڑ کی اہمیت بہت زیادہ ہے. درخت کی جڑ کاٹ دیں تو وہ درخت ہی نہ رہے گا‘ وہ تو سوختنی لکڑی بن جائے گا. اس لیے ہمیں پہلے خلافت کے اصولوں کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے. ان اصولوں کے بارے میں ہمیں کوئی
compromise نہیں کرنا‘ بلکہ ان کو جوں کا توں برقرار رکھنا ہے. البتہ جہاں حالات متقاضی ہوں وہاں ان اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے اجتہاد کا راستہ اختیار کرنا ہو گا.