خلافت کی حقیقت (۱) اللہ کی حاکمیت

خلافت کیا ہے؟ اس کا مختصر ترین جواب یہ ہو گا کہ خلافت‘ حاکمیت کی ضد ہے. اسلام کے نزدیک حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کے لیے مخصوص ہے. (۱چنانچہ اسلامی نقطۂ نظر سے جو کوئی بھی اپنی حاکمیت کا مدعی ہو گا وہ گویا خدائی کا دعویدار ہے. فرعون کا دعویٰ بھی تو یہی تھا: اَلَیۡسَ لِیۡ مُلۡکُ مِصۡرَ وَ ہٰذِہِ الۡاَنۡہٰرُ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِیۡ ۚ (الزخرف :۵۱)

’’کیا مصر پر میری فرماں روائی نہیں؟ اور یہ نہریں میرے زیر فرمان رواں نہیں؟‘‘
نظامِ آبپاشی سارا میرے قبضے میں ہے‘ جس کو چاہوں پانی دوں اور جس کو چاہوں محروم کر دوں. مصر کی ساری معیشت کا دارومدار اسی 
irrigation system پر تھا. اس لیے اس نے اَنَا رَبُّکُمُ الۡاَعۡلٰی کا نعرہ لگا دیا. نہ فرعون اتنا احمق تھا نہ اس کے ماننے والے اتنے جاہل تھے کہ وہ کائنات کا خالق ہونے کا دعویٰ کر بیٹھتا اور اس کی رعیت یہ دعویٰ کان دبا کر تسلیم کر لیتی. دراصل اس کا دعویٰ حاکمیت ہی کا دعویٰ تھا اور اسی دعویٰ کو خدائی کا دعویٰ قرار دیا گیا ہے.
توحید کی اس اہم فرع کو اچھی طرح واضح کرنے کے لیے میں نے قرآن حکیم کے چار مقامات سے آیات منتخب کی ہیں. سورۂ بنی اسرائیل میں ارشاد ہے:

وَّ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ شَرِیۡکٌ فِی الۡمُلۡکِ (آیت ۱۱۱)

’’حاکمیت میں اس کا شریک کوئی نہیں ہے.‘‘
سورۃ الکہف میں فرمایا:
وَّ لَا یُشۡرِکُ فِیۡ حُکۡمِہٖۤ اَحَدًا ﴿۲۶

’’وہ اپنی حاکمیت میں کسی کو شریک نہیں کرتا.‘‘
سورۂ یوسف میں ہے: 

اِنِ الۡحُکۡمُ اِلَّا لِلّٰہِ ؕ اَمَرَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ ؕ ذٰلِکَ الدِّیۡنُ الۡقَیِّمُ … 

(یوسف:۴۰

’’نہیں ہے حکومت اور حاکمیت مگر صرف اللہ کی‘ اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو.‘‘
پھر سورۃ النور (آیت ۵۵) میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو تسلیم کرنے کا جو منطقی نتیجہ نکلتا ہے یعنی انسانوں کی خلافت‘ اس کا ذکر اس طرح فرمایا گیا ہے:

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ… ’’اللہ نے وعدہ کیا ہے ان لوگوں سے جو تم میں سے ایمان لائیں اور عمل صالح کریں کہ وہ ان کو زمین پر ضرور خلیفہ بنائے گا.‘‘
مطلب یہ ہے کہ انسانوں کے لیے حاکمیت نہیں‘ خلافت ہے. انسانوں کی حاکمیت خواہ شخصی ہو یا اجتماعی‘ قرآن کی رو سے شرک ہے. جمہوریت کا اصول 
popular sovereignty ہے. یہ بھی اتنا ہی بڑا کفر و شرک ہے جتنا کسی انسان کی انفرادی حاکمیت. فرعونیت‘ نمرودیت اور عوامی حاکمیت میں نوعیت کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں. بقول اقبال: ؎
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری!

انسانی ’’حاکمیت‘‘ کا عقیدہ ایک نجاست ہے. اب خواہ نجاست کاٹنوں وزنی یہ ٹوکرا کسی ایک شخص کے سر پر رکھ دیا جائے یا تولہ تولہ ماشہ ماشہ کر کے اس نجاست کو جمہور پر تقسیم کر دیا جائے‘ شرک کا یہ نجس عقیدہ تقسیم کر دینے کے بعد بھی نجس کا نجس ہی رہے گا. توحید کا تقاضا تو یہ ہے کہ حاکمیت صرف اللہ کی ہے. اور جب حاکمیت اللہ کی ہے تو اب انسانوں کے لیے کیا رہ گیا؟ خلافت اور صرف خلافت (۲.چنانچہ خلافت اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا منطقی نتیجہ ہے.

اس تصور کو سمجھنے کے لیے انگریزی دورِ حکمرانی کے وائسرائے کی مثال کو سامنے رکھئے. اس دور میں حاکمیت ملکۂ برطانیہ یا شاہِ برطانیہ کی تھی. دہلی میں ان کا وائسرائے ہوتا تھا. وائسرائے کا کام صرف یہ تھا کہ اصل حاکم کا جو حکم آ جائے اس کی تکمیل و تعمیل اور تنفیذ کرے. اسے کسی چون و چرا کی جرأت نہ تھی‘ کیونکہ حاکمیت اس کی نہیں تھی. ہاں جن معاملات میں وہاں سے حکم نہ ملتا وہاں وہ حکمت اور حالات کے تقاضوں کو سمجھ کر اپنی صوابدید سے فیصلہ کر سکتا تھا. یہ 
vicegerency کا صحیح تصور ہے. بس فرق یہ تھا کہ اس کا حاکم ملکہ ٔبرطانیہ یا شاہِ برطانیہ تھا‘ جب کہ یہاں معاملہ شہنشاہِ ارض و سماء کا ہے اور انسان کی حیثیت vicegerent کی ہے.