خلافت کے سلسلے میں دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ خلافت پوری نوعِ انسانی کو عطا کی ہے. چنانچہ نوعِ انسانی کے جد امجد حضرت آدم علیہ السلام کو خلیفہ بنایا گیا تھا. جیسا کہ ارشاد ہے: 

وَ اِذۡ قَالَ رَبُّکَ لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیۡ جَاعِلٌ فِی الۡاَرۡضِ خَلِیۡفَۃً ؕ (البقرہ:۳۰

’’اور (یاد کرو) جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا تھا بیشک میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں.‘‘

اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمیت کو خلافت دے دی گئی ‘ لیکن… (اور یہ ’’لیکن ‘‘بہت بڑا ہے)… نسل آدم میں سے جو خود مختاری کا دعوے دار بن کر بغاوت کی روش اختیار کر لے وہ باغی ہو گیا اور باغی کو زندہ رہنے کا بھی حق نہ ہونا چاہیے. تاہم اس کی کم سے کم یہ سزا تو بالکل منطقی ہے کہ اس کا حق خلافت سلب ہو جائے. (۳چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بنیادی طور پر تو خلافت پوری نوع انسانی کو عطا کی تھی‘ لیکن اب انسانوں میں خلافت کے حق دار صرف وہ لوگ ہیں جو اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کر کے اس کے سامنے سراطاعت خم کر دیں. ان کا یہ رویہ ’’اسلام‘‘ ہے اور وہ خود مسلم ہیں. اسلام کے معنی ہیں گردن نہادن (گردن جھکا دینا) یعنی to surrender یا to submit .

یہی وجہ ہے کہ جو لوگ اب انسانی حاکمیت کے دعوے دار بن گئے ہیں، مسلمانوں کو ان کی سرکوبی کا حکم دیا گیا ہے. ارشاد ہوا ہے:

وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ (الانفال:۳۹)

(مطلب یہ ہے کہ یہ باغی ہیں) ’’ان سے جنگ جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ و فساد فرو ہو جائے اور دین کل کا کل اللہ کے لیے ہو جائے.‘‘
جہاد و قتال کے جواز کی توجیہہ یہی ہے. حاکمیت ِاعلیٰ سے بغاوت کی اس سزا کو دورِ حاضر کا انسان بھی تسلیم کرتا ہے. چنانچہ جہاد و قتال کی اس توجیہہ کو وہ بھی قبول کرنے پر مجبور ہے اور اسی توجیہہ کی بنیاد پر یہ کڑوی گولی دورِ حاضر کا انسان اپنے حلق سے اتار سکتا ہے.

تاہم جب تک مسلمان باغیوں کا فتنہ فرو کرنے کے قابل نہیں‘ باغی اپنی اچھل کود دکھا سکتے ہیں. اصولاً تو اس وقت بھی ان کا حق خلافت سلب ہو چکا ہے اور جائز طور پر خلافت اس وقت بھی صرف مسلمانوں کا حق ہے.