(۳) خلافت شخصی باقی نہیں رہی:

تیسری بات یہ کہ جب تک نبوت کا سلسلہ جاری تھا اس وقت تک خلافت شخصی تھی. ایسا کیوں تھا؟ اس لیے کہ اللہ کا حکم ہر انسان کے پاس براہِ راست نہیں آ رہا تھا. حاکم حقیقی تو آسمان پر تھا‘ ہر انسان سے اس کا براہِ راست رابطہ نہ تھا‘ البتہ وحی یا verbal communication کے ذریعے صرف نبی کا رابطہ اصل حاکم سے قائم ہوتا تھا. احکام اُسی کے پاس آتے تھے اور تنفیذ کا ذمہ دار بھی وہی تھا. یہی وجہ ہے کہ اس وقت خلافت شخصی تھی. چنانچہ حضرت داؤد علیہ السلام سے صیغۂ واحد میں خطاب کر کے فرمایا گیا تھا:

یٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلۡنٰکَ خَلِیۡفَۃً فِی الۡاَرۡضِ (ص :۲۶)
’’اے داؤد! ہم نے تم کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے.‘‘

اس طرح ارشاد نہیں ہوا کہ ’’اے بنی اسرائیل ہم نے تم کو خلافت دی ہے‘‘ بلکہ خطاب ایک فرد معین سے ہے. نبی  کی ایک حدیث مبارکہ سے بھی اس موضوع پر بہت روشنی پڑتی ہے. فرمایا:
کَانَتْ بَنُو اِسْرَائِیلَ تَسْوسُھْمْ الَانْبِیَاءُ کُلَّمَا ھَلَکَ نَبِیٌّ خَلَفَہٗ نَبِیٌّ 
(متفق علیہ) 

’’بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء کے ہاتھ میں تھی‘ جیسے ہی ایک نبی کا انتقال ہوتا تھا ایک اور نبی اس کا جانشین ہو جاتا تھا.‘‘
چنانچہ حضرت داؤد علیہ السلام کی وفات کے بعد نبوت بھی حضرت سلیمان علیہ السلام کو مل گئی اور خلافت بھی‘ پھر چودہ سو برس تک یہ سلسلہ ٹوٹا ہی نہیں. مگر ہمارے زمانے میں جب تک نبی اکرم موجود تھے آپؐ ہی خلیفہ تھے. جب آنحضرت  کا انتقال ہو گیا تو آپؐ کے ساتھ وحی و نبوت کا سلسلہ تو ختم ہو گیا‘ مگر خلافت کے نظام میں ایک بہت بڑا انقلاب آ گیا. اب خلافت شخصی نہیں ،اجتماعی ہو گئی. چنانچہ سورۃ النور کی آیت ۵۵ 
پر ایک بار پھر نظر ڈالیے.

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ…

’’اللہ کا وعدہ ہے کہ (اے مسلمانو!) تم میں سے جو لوگ ایمان اور عمل صالح کا حق ادا کر دیں گے ہم انہیں لازماً زمین میں خلافت عطا کریں گے.‘‘
دیکھئے یہاں واحد کی ضمیر نہیں ہے بلکہ جمع کی ضمیر ہے. گویا اب خلافت شخصی اور انفرادی کے بجائے اجتماعی بن چکی ہے.
اس دور میں 
social evolution (عمرانی ارتقاء) جس مقام پر پہنچ چکا ہے اس کے حوالے سے ’’حاکمیت‘‘ کا جائزہ بھی لینا ہو گا. معاشرتی ارتقاء کے تین مرحلے (stages) ہیں.
ایک زمانہ تھا جب انسان صرف قبائلی اجتماعیت سے واقف تھا. قبیلے کا ایک سردار ہوا کرتا تھا. اب اگر وہ سردار یہ دعویٰ کرتا کہ میرے اختیارات مطلق ہیں‘ میں جو چاہوں حکم دوں تو گویا اس نے ’’حاکمیت‘‘ کا دعویٰ کیا جو کفر و شرک ہے. تاہم اگر وہ تسلیم کرے کہ میں اللہ کا بندہ ہوں‘ اللہ کا حکم نافذ کروں گا تو اب اس کی حیثیت خلیفہ کی ہو گئی. حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہی پوزیشن تھی. وہ کہیں کے بادشاہ نہ تھے‘ بس ایک گھرانے کے سردار تھے لیکن اللہ کے نبی تھے‘ اللہ کا حکم نافذ کرنے والے تھے. گویا وہ اپنے خاندان میں اللہ کے خلیفہ تھے.

عمرانی ارتقاء کے اگلے مرحلے 
(stage) میں بڑی بڑی مملکتیں قائم ہو گئیں. ان سلطنتوں کے زمانے میں دورِ ملوکیت کا آغاز ہوا. یہ ملوک بھی دو قسم کے تھے. ایک طرف فرعون جیسے ملوک تھے جو اپنے اختیارِ مطلق کے دعوے دار تھے‘ دوسری طرف داؤد علیہ السلام جیسے بادشاہ تھے. قرآن مجید میں آتا ہے : وَ جَعَلَکُمۡ مُّلُوۡکًا (المائدۃ:۲۰’’اور(اے بنی اسرائیل!) اس نے تم کو ملوک بنایا.‘‘ گویا عمرانی ارتقاء کے اس مرحلے میں وہ بادشاہ تو ہیں لیکن معناً خلیفہ ہیں‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا جو حکم آ رہا ہے اس کو وہ خودبھی مان رہے ہیں اور اس کی تنفیذ بھی کر رہے ہیں.

اور… عمرانی ارتقاء کا اب آخری مرحلہ (stage) عوامی حاکمیت کا دور ہے. انسانوں میں اپنے حقوق کا شعور بیدار ہوا. ان کے ذہنوں میں سوالات ابھرنے لگے کہ ان کے اوپر انہی جیسا ایک انسان کیسے حکومت کر سکتا ہے‘ اس کے بھی دو ہی ہاتھ اور دو ہی پاؤ ں تو ہیں. یہ حکمرانی تو پوری انسانیت کا حق ہے جس پر ایک شخص قابض ہو گیا ہے. مگر اس آخری ارتقاء کی منزل میں بھی حق و باطل کا معرکہ جاری ہے. ہم کہہ سکتے ہیں کہ شروع سے دو ہی چیزوں کے درمیان معرکہ آرائی رہی ہے‘ ایک طرف حاکمیت ہے دوسری طرف خلافت. گویا: ؎ 

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفویؐ سے شرارِ بولہبی!

البتہ یہ ضرور ہے کہ حاکمیت کی شکلیں مختلف ادوار میں مختلف رہی ہیں. حاکمیت اور خلافت کے ظاہری ڈھانچے بظاہر ایک جیسے ہوتے ہیں‘ ان میں کوئی فرق نظر نہیں آتا. کہنے کو فرعون و نمرود بھی بادشاہ ہیں اور داؤد و سلیمان علیہما السلام بھی بادشاہ. لیکن نمرود اور فرعون در حقیقت خدائی کے دعوے دار ہیں لہذا مشرک اور کافر ہیں‘ جب کہ داؤد ؑاور سلیمانؑ ظاہری اعتبار سے تو بادشاہ ہیں لیکن حقیقت میں خلیفہ ہیں. بعینہٖ یہی پوزیشن آج کے عہد میں ہے.

علامہ اقبال نے یہ بات اپنی زندگی کی آخری نظم ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ میں بیان کی ہے ـ . اس نظم میں علامہ اقبال کے عمرانی فکر (social thoughts) کا خلاصہ آگیا ہے. چنانچہ اس نظم میں ابلیس کا ایک مشیر کہتا ہے: ’’جمہوریت کا دور آگیا ہے‘ ہمیں اس سے بڑا اندیشہ ہے. گویا ہماری شیطنت کو چیلنج کرنے کے لیے انسان جاگ اٹھا ہے.‘‘ دوسرا مشیر کہتا ہے کہ ’’تمہیں خواہ مخواہ کی تشویش ہو گئی ہے. ارے ؎ 

’’ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خودشناس و خودنگر
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر‘‘

حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دور کی جمہوریت دراصل سرمایہ داروں کی آمریت (Dictatorship of the Capitalists) ہے. امریکہ کے نظام کو جو لوگ جمہوریت سمجھے بیٹھے ہیں ان کی دماغی صحت یقینا مشکوک ہے بقول اقبال: ؎ 

دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری

امریکہ میں الیکشن لڑنے کے لیے millionare نہیں billionare ہونا ضروری ہے. بیچارے عام آدمی کے ہاتھ میں تو صرف ووٹ کی پرچی ہے‘ جس نے اسے پاگل بنا دیا ہے. یہی پرچی ہمارے ہاں بھی عام آدمی کے ہاتھ میں آگئی ہے‘ مگر پس پردہ کھیل وہاں سرمایہ داروں کا ہے‘ یہاں جاگیرداروں کا ہے. جمہوریت تو تب ہو گی جب عوام کے اندر معاشی انصاف قائم ہو جائے. اس معاشی انصاف کے بعد ان کے ہاتھ میں پرچی دے کر دیکھئے. اب وہ خود فیصلے کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے کہ اس پرچی کو وہ کس کے لیے استعمال کریں.

ایک طرف عمرانی ارتقاء کے نتیجے میں شیطان نے انسانی حاکمیت کے تصور کو اجتماعی حاکمیت (popular sovereignty) کی شکل دے دی ہے تاکہ اس کی شیطنت برقرار رہے. دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے بھی انسانی خلافت کو شخصی خلافت سے ہٹا کر اجتماعی خلافت میں بدل دیا ہے. یہ معاملہ ساتھ ساتھ چل رہا ہے. حاکمیت اور خلافت کی جنگ مسلسل جاری ہے. عہد ِحاضر کی خلافت ’’عوامی خلافت‘‘ ہے. حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بقول خلافت ’’امرالمسلمین‘‘ ہے. یہ مسلمانوں کا ایک اجتماعی ادارہ ہے. قرآن مجید میں اس فلسفہ کو سورۃ الشوریٰ میں ان الفاظ کے ذریعے واضح کیا گیا ہے: وَ اَمۡرُہُمۡ شُوۡرٰی بَیۡنَہُمۡ اس سے یہی مراد ہے کہ مسلمانوں کا ’’امر‘‘ مسلمانوں کی باہمی مشاورت سے طے پائے گا.