اِس وقت بھی ہر انسان اپنی جگہ خلیفہ ہے مگر کس معنی میں؟ اس معنی میں کہ میرا یہ جسم میرے پاس اللہ کی امانت ہے‘ میں اس کے استعمال میں اللہ کا خلیفہ ہوں‘ تاکہ اس جسم پر اللہ کا حکم نافذ کروں اور جسم میں جو صلاحیتیں ودیعت ہیں انہیں اُس کی مرضی کے مطابق صرف کروں. اس جسم کو وہی دوں جو اللہ نے اس کے لیے حلال ٹھہرایا ہے. اگر میں یہ روش اختیار کروں تو خلیفہ ہوں. اس کے برعکس اگر میں یہ کہوں کہ اپنے جسم سے اپنی مرضی کے مطابق کام لوں گا تو میں گویا خدائی کا دعویدار ہوں‘ حاکمیت کا مدّعی ہوں. چنانچہ سورۃ الحدید میں آیا ہے:

اٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ اَنۡفِقُوۡا مِمَّا جَعَلَکُمۡ مُّسۡتَخۡلَفِیۡنَ فِیۡہِ ؕ (آیت:۷

’’ایمان لاؤ اللہ پر اور اُس کے رسول پر اور کھپا دو ان تمام چیزوں کو اللہ کے راستے میں جن میں اس نے تمہیں خلافت عطا کی ہے.‘‘
بقول حضرت شیخ سعدی: ؎ 

ایں امانت چند روزہ نزدِ ماست
درحقیقت مالک ہر شے خداست 

(یہ جو کچھ میرے پاس ہے‘ چند روزہ امانت ہے (ورنہ) ہر چیز کا مالک تو درحقیقت اللہ تعالیٰ ہے)

یہ ہاتھ میری ملکیت نہیں ہیں بلکہ اللہ کی عطا کردہ امانت ہیں. میرا پورا وجود اور پھر جو کچھ مزید مال و اولاد کی شکل میں دیا گیا ہے‘ سب اللہ کی امانت ہے . اس لیے پہلے اپنے وجود میں‘ اس کے بعد اپنے اس گھر میں جس کے آپ سربراہ ہیں‘ خلافت کا حق ادا کریں. لیکن اگر آپ نے اپنے گھروں میں اللہ کے حکم کے بجائے کسی اور کا حکم چلانا شروع کر دیا ہے تو اس صورت میں آپ خلیفہ نہیں باغی ہیں.

اب یہ دیکھنا ہے کہ خلافت کی اجتماعی شکل کیا ہو گی! اجتماعی نظام کیسے بنانا ہوگا؟ اس کو اس بات پر قیاس کیجیے کہ اجتماعی حاکمیت کا نظام کیسے بنایا گیا ہے. پاکستان میں اس وقت گیارہ کروڑ آدمی بستے ہیں تو کیا گیارہ کروڑ حاکم ہو گئے؟ اگر یہ صورت ہے تو گاڑی کیسے چلے گی؟’’تو بھی رانی میں بھی رانی کون بھرے گا پانی؟‘‘ عوامی حاکمیت کا مطلب تو یہی ہے. لیکن یہ دیکھئے کہ نظام کیسے بنایا گیا! نظام بنانے اور چلانے کے لیے ووٹ کی ایک پرچی دے کر آپ اپنی حاکمیت کو منتقل کر دیتے ہیں. میں رائے کا اظہار ایک شخص کے حق میں کر رہا ہوں‘ آپ کسی دوسرے شخص کے حق میں کر رہے ہیں. ایک شخص حاکمیت کا حق ووٹ کے ذریعے ان لوگوں کو تفویض کر دیتا ہے جو منتخب ہو کر اسمبلی میں پہنچ گئے. اگر صدارتی نظام ہے تو یہ اختیار صدر کو منتقل ہو جائے گا. گویا ملک کے عوام کی اکثریت نے اپنی حاکمیت اسے منتقل کر دی ہے. بعینہٖ یہی معاملہ وَ اَمۡرُہُمۡ شُوۡرٰی بَیۡنَہُمۡ میں بھی ہو گا. میں بھی اللہ کا خلیفہ ہوں‘ آپ بھی اللہ کے خلیفہ ہیں‘ اس لیے کہ خلافت اجتماعی ہے. اب اجتماعی نظام بنانے کے لیے کسی اصول کو اختیار کرنا پڑے گا. لوگ اپنی ’’خلافت‘‘ کسی ایک شخص کو منتقل کریں گے جو ’’خلیفۃ المسلمین‘‘ کہلائے گا. تمام مسلمانوں کے پاس جو حق ِخلافت تھا اس حق کو ان کی عظیم اکثریت نے اس شخص کو منتقل کر دیا‘ اس معنی میں وہ خلیفۃ المسلمین ہے.

خلفاء راشدین کے لیے امیر المؤ منین کی اصطلاح استعمال ہوتی تھی‘ لیکن خلافت عثمانیہ تک پہنچتے پہنچتے اصطلاح بدل گئی. اب ان خلفاء کے لیے امیر المؤمنین کے بجائے خلیفۃ المسلمین کی اصطلاح استعمال ہونے لگی. یہ اصطلاح بالکل صحیح ہے. ظاہر بات ہے کہ عہد ِحاضر میں جو خلافت بنے گی وہ ’’وَ اَمۡرُہُمۡ شُوۡرٰی بَیۡنَہُمۡ‘‘ کے اصول کے تحت ہی بنے گی. مسلمانوں کے نزدیک جو شخص اہل ہے وہ اسے اپنا ووٹ دیں گے. ان کی اس رائے سے خلیفۃ المسلمین منتخب ہو گا‘ اور اس طرح اجتماعی نظام وجود میں آ جائے گا.

اب ہمیں اجتماعی نظام پر بات کرنی ہے. انسانی اجتماعیت کے اندر مختلف سطحیں (stages) ہیں جن کی ایک ترتیب تاریخی بھی ہے اور اہمیت کے اعتبار سے بھی. اس کے علاوہ ایک ترتیب قرآن حکیم اور دین کے حوالے سے بھی ہے.