ّاس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ خلافت راشدہ کے بعد دینی اعتبار سے ہم مسلسل زوال ہی کی طرف گئے ہیں. بنو اُمیہ کے ۹۰ برس کے دورِ حکومت میں رفتہ رفتہ خلافت ِراشدہ کے امتیازی اوصاف ختم ہونا شروع ہو گئے. اس کے بعد بنوعباس کا دور شروع ہوا. اس میں تو ملوکیت اپنی پوری شان سے جلوہ گر ہو گئی. دینی اعتبار سے تو ہم ضرور زوال سے دو چار ہوئے‘ لیکن تمدنی و تہذیبی اعتبار سے اور علمی و فنی اعتبار سے مسلمانوں نے ایک ہزار برس تک دُنیا کی امامت کی. دونوں باتوں کو پیش نظر رکھئے‘ اسلام گر رہا ہے مگر مسلمان نہیں گر رہا. محمد ر سول اللہ  نے جس بلندی پر پہنچایا تھا وہاں سے گرتے گرتے بھی دنیاوی اعتبار سے غلبہ مسلمانوں کے پاس موجود رہا.

عالمِ اسلام علوم و فنون کی معراج کو پہنچا ہوا تھا‘ جب کہ یورپ اس وقت سویا ہوا تھا. وہ خود بھی اس دور کو Dark Ages کے نام سے یاد کرتے ہیں. وہاں سائنس اور فلسفہ پڑھنے کی اجازت ہی نہیں تھی. اگر کسی کے گھر سے سائنس یا فلسفہ کی کوئی کتاب برآمد ہو جاتی تو اسے زندہ جلا دیا جاتا.غرض ایک ہزار سال تک مسلمانوں کا دبدبہ قائم رہا. اگر ایک سمت میں ان کے اقتدار کا سورج ڈوبا تو دوسری طرف سے طلوع ہو گیا. ہسپانیہ سے مسلمانوں کا خاتمہ ہوا تو مشرق کی طرف سے ترک اسلام کے علمبردار بن کر یورپ میں داخل ہو گئے. ؎ 

جہاں میں اہل ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے‘ اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے!