مسلمانوں کی یہ حالت کم و بیش ایک ہزار سال تک رہی. اس کے بعد ہمارے تین سو برس غفلت کی نیند سو جانے کے ہیں. یورپ کو ہم نے اپنی ہسپانوی یونیورسٹیوں سے بیدار کر دیا اور خود سو گئے. یورپ کو علم‘ ہنر‘ فلسفہ‘ سائنس اور منطق ہم نے سکھائے ہیں. اٹلی‘ فرانس اور جرمنی سے نوجوان اس طرح چل کر غرناطہ اور قرطبہ کی یونیورسٹیوں میں آتے تھے جیسے آج کا ہمارا نوجوان یورپ اور امریکہ جاتا ہے. اس کے بعد کا علمی و تہذیبی ارتقاء کل کا کل وہاں ہوا ہے.

یہ جو کہا جاتا ہے کہ Give the devil his due یعنی شیطان کو بھی اس کا جائز حصہ ملنا چاہیے‘ یہ بات غلط نہیں. ازروئے الفاظِ قرآنی وَ لَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعۡدِلُوۡا ؕ اِعۡدِلُوۡا ۟ ہُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی ۫ (المائدۃ:۸چنانچہ یہ بات ہر انسان جانتا ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا ارتقاء مغرب میں ہو اہے. یہ بجلی کسی مسلمان نے تو ایجاد نہیں کی‘ اسی طرح یہ لاؤ ڈ سپیکر‘ اسٹیم انجن‘ ہوائی جہاز‘ وائرلیس‘ یہ ساری ترقی یورپ ہی میں تو ہوئی ہے. اگرچہ یہ ان کے باپ کی جائیداد نہیں ہے‘ بلکہ نوعِ انسانی کی مشترک میراث ہے‘ ہمارا بھی اس پر اتنا ہی حق ہے جتنا کہ ان کا ہے.

حضور  کے ایک ارشاد کے مطابق ہمارا حق زیادہ ہے: اَلْحِکْمَۃُ ضَالَّۃُ الْمُؤْمِنُ ھُوَ اَحَقُّ بِھَا حَیْثُ وَجَدَھَا یعنی ’’حکمت مؤمن کی گم شدہ متاع ہے‘ وہ جہاں بھی اسے پائے یہی اس کا زیادہ حق دار ہے‘‘. ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ انگریزوں کی ایجاد ہے‘ ہم اس سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے. اگر ہم یہ طے کر لیں گے کہ ہم غیروں کی کوئی چیز بھی استعمال نہیں کریں گے تو ہم اپنے پاؤں پر کلہاڑا ماریں گے. ہماری اس روش سے ان کا تو کچھ نہیں بگڑے گا.