دنیا میں رائج دستوری خاکے اور صدارتی نظام کے اسباب برتری

جہاں تک ریاست کے دستوری خاکے کاتعلق ہے ‘ اس کی ایک تقسیم تو پارلیمانی جمہوریت اور صدارتی جمہوریت کی صورت میں کی گئی ہے. دوسری تقسیم وفاقی‘ وحدانی اور ایک بہت ہی کم رائج نظام کنفیڈرل (یا میثاقی) نظام میں کی گئی ہے. ان میں سے جس کو بھی آپ اپنے حالات کے لحاظ سے پسند کریں اس کے اندر تین چیزیں شامل کر کے اس کو خلافت میں تبدیل کر سکتے ہیں.

ان تین چیزوں کی وضاحت سے پہلے ایک اور اصولی بات یہ سمجھ لینی چاہیے کہ خلافت کا آئیڈیل نمونہ خلافت ِراشدہ ہے. اس خلافت ِراشدہ سے قریب تر اور عقلی اعتبار سے زیادہ معقول اور مسلم صدارتی نظام ہے‘ پارلیمانی نہیں . خلافت ِراشدہ میں اختیارات کا ارتکاز خلیفہ کی ذات میں تھا. عہد ِحاضر میں امریکہ کا صدارتی نظام اس کے بہت قریب پہنچ گیا ہے. ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ خلافت ِراشدہ میں خلیفہ کا انتخاب تا حیات ہوتا تھا،جب کہ یہاں معاملہ چار یا پانچ سال کے لیے ہوتا ہے. امریکہ کے صدر کو منتخب ہونے کے بعد کانگریس کی ضرورت نہیں رہتی. امریکہ کے بارے میں یہ بات ہم مانتے ہیں کہ وہ دنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک ہے. اس حوالے سے بطور دلیل سمجھ لینا چاہیے کہ صدارتی نظام پارلیمانی نظام کی نسبت عمرانی ارتقاء کی بلند تر سطح پر ہے.

اس بات کو دلائل سے ثابت کیا جا سکتا ہے کہ صدارتی نظام پارلیمانی نظام سے بہتر ہے. پہلی بات تو یہ ہے کہ پارلیمانی نظام ان ممالک میں ہے جو برطانیہ کے محکوم رہے ہیں. ان ممالک کے باشندوں کی جو بھی تھوڑی بہت تربیت ہے وہ انگریزوں کے زیر سایہ اسی نظام کی ہے. ظاہر ہے جو نظام وہ خود اپنائے ہوئے تھے اسی کی تربیت بھی دینی تھی. انگریزوں کی مجبوری یہ ہے کہ وہ اپنے ہاں کی بادشاہت کو بھی اپنی روایت کی بنیاد پر لے کر چلنا چاہتے ہیں. وہ چاہتے ہیں کہ ملکہ یا بادشاہ بھی رہے‘ تاج بھی رہے‘ لیکن ان کے ہاتھ میں کچھ نہ ہو‘ لہذا ان کو ’’ ثنویت‘‘ (۹اختیار کرنی پڑی. ان کے ہاں دستوری طور پر ریاست کا سربراہ بادشاہ یا ملکہ ہے‘ جب کہ حکومت کا سربراہ وزیراعظم ہوتا ہے. تمام اختیارات پارلیمنٹ اور اس کے نمائندہ وزیراعظم کے پاس ہیں. اِس وقت یہ نظام برطانیہ کے علاوہ ان ممالک میں ہے جو برطانیہ کے زیر نگیں رہے ہیں. اِس کے علاوہ یہ نظام ان ممالک میں ہے جو اس بیماری میں مبتلا ہیں کہ بادشاہ کو ایک یادگار کے طور پر ضرور سجا کر رکھنا ہے. میں اسےHuman Zoo کہا کرتا ہوں. یہ امر واقعہ ہے کہ بادشاہ یا ملکہ کی حیثیت یادگار سے زیادہ نہیں.

ہمارے ملک میں بھی یہ نظام اس لیے ہے کہ ہم انگریز کے محکوم رہے ہیں. بھارت کے ہاں بھی اسی لیے ہے کہ وہ انگریز کا محکوم رہا ہے. ورنہ حقیقت یہی ہے کہ یہ انتہائی نامعقول نظام ہے. میں نے اسے نامعقول اس لیے قرار دیا ہے کہ ایک کو تو آپ نے بنا دیا سربراہِ ریاست اور دوسرے کو سربراہِ حکومت‘ لیکن ان دونوں کے اختیارات میں توازن کیسے ہو گا؟ اس نظام میں کوئی توازن حقیقتاً ہو ہی نہیں سکتا. ایک شخص کو آپ بناتے تو ہیں سربراہِ ریاست مگر کر وہ کچھ بھی نہیں سکتا. اس سے زیادہ بھی کوئی نامعقول بات ہو سکتی ہے؟ اگر آپ نے کچھ اختیارات سربراہِ ریاست کو بھی دے دیے تو سمجھئے کہ دیو کی جان طوطے کی گردن میں آ گئی. صدر صاحب جب چاہیں عوام کے منتخب وزیراعظم کی گردن مروڑ دیں. آٹھویں ترمیم کے بعد صدر تو ضیاء الحق جیسا ہی ہو گا کہ اس نے جونیجو صاحب کو ایک منٹ میں رخصت کر دیا. ورنہ صدر فضل الٰہی کی طرح ایوانِ صدر کا قیدی ہو گا‘جس کی رہائی کے لیے دیواروں پر نعرے لکھنے ہوں گے کہ ’’صدر فضل الٰہی چودھری کو رہا کرو!‘‘ اگر صدر کے پاس کوئی کام ہی نہ ہو گا تو وہ بیٹھے بیٹھے تھک جائے گا اور کچھ کرنے کو نہ ہو گا تو بیچارہ سازش ہی کرے گا.

اصولی طور پر یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جدید ریاست کے جو تین گوشے عدلیہ‘ انتظامیہ اور مقننہ مقرر کیے گئے ہیں‘ صدارتی نظام میں بالکل علیحدہ ہوتے ہیں. انتظامیہ کا سربراہ صدر منتخب ہونے کے بعد مقننہ (کانگریس) کا دست نگر نہیں ہوتا. امریکہ میں بارہا ایسا ہوا ہے کہ کانگریس میں اکثریت ڈیمو کریٹس کی ہے مگر صدر ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھتا ہے‘ مگر اس کے باوجود وہ بڑے اطمینان اور یکسوئی سے انتظامی امور سر انجام دیتا رہتا ہے. قانون سازی کانگریس کا کام ہے جو کسی خارجی دباؤ کے بغیر اپنا کام کرتی رہتی ہے‘ لہذا کہیں کوئی گڑبڑ نہیں ہوتی. عدلیہ پوری آزادی کے ساتھ آئین و قانون کی حفاظت کی ذمہ داری نبھاتی ہے. اس کے برعکس پارلیمانی نظام میں مقننہ اور انتظامیہ گڈ مڈ ہوتے ہیں. یہ سب سے بڑی مصیبت ہے کہ کسی وقت بھی چند مینڈک پھدک سکتے ہیں یا چند گھوڑے بِک سکتے ہیں‘ اور بے چارے وزیراعظم کا وقت انہی گھوڑوں کی رکھوالی میں صرف ہو جاتا ہے. 

پارلیمانی نظام کی خامیاں آج ہمارے سامنے زیادہ کھل کر آ گئی ہیں. پاکستان کے حالیہ انتخابات (۱۰کے بعد آزاد امیدواروں کی حکومتیں بنی ہیں. گویا آزاد امیدوار اکثریتی پارٹیوں کو بلیک میل کر رہے ہیں ـ . بعض صوبوں میں تو یہ تماشا بھی دیکھا گیا کہ تمام آزاد امیدوار وزیر بن گئے اور پارٹی ممبران ’’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘‘ کی تصویر بن کر رہ گئے. صدارتی نظام اتنا صاف ستھرا ہے کہ آپ نے صدر کا انتخاب کر لیا. بس اب صدر جس کو اہل سمجھے‘ وزیر بنائے. صدارتی نظام میں وزراء کا کانگریس سے ہونا ضروری نہیں ہے‘ جبکہ پارلیمانی نظام میں وزراء کے لیے پارلیمنٹ کارکن ہونا ضروری ہے. صدارتی نظام میں ان لوگوں کی صلاحیتوں سے بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے جو سیاست کے کھیل سے دُور ہیں‘ لیکن کسی خاص شعبے میں ماہر (expert) ہیں. مثلاً آپ کو مالیات کے لیے ایسا آدمی درکار ہے جو جدید معاشیات سے پوری طرح آگاہ ہو. اب ضروری نہیں کہ وہ پارلیمنٹ کا ممبر بھی ہو. مگر پارلیمانی نظام میں اس کی خدمات سے آپ استفادہ نہیں کر سکتے جب تک وہ پارلیمنٹ کا ممبر نہ بن جائے.