ایک اور مغالطے کا ازالہ بھی ضروری ہے جو ہمارے مذہبی مزاج کے حامل اکثر لوگوں کے ذہنوں میں موجود ہے. وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر اسلامی ریاست قائم ہو جائے تو چونکہ شریعت ساری کی ساری موجود ہے‘ لہذا کسی مقننہ کی ضرورت پیش نہ آئے گی. یہ سوچ دراصل کم فہمی کا نتیجہ ہے‘کیونکہ جدید صنعتی و سائنسی ترقی سے بے شمار نئے مسائل جنم لے چکے ہیں‘ جن کے لیے قرآن و سنت کی روشنی میں قانون سازی کی ضرورت ہے. صرف زکوٰۃ ہی کے بارے میں بے شمار مسائل پیدا ہو چکے ہیں. کارخانوں پر زکوٰۃ کیسے لگے گی؟ ٹرکوں اور بسوں کا کیا حکم ہے؟ کروڑوں روپیہ کی مشینری کا کیا حکم ہو گا؟ خود حکومت کی آمدنی سے اخراجات کا allocation یعنی مختلف مدات مثلاً تعلیم‘ صحت‘ دفاع‘ تعمیر و ترقی پر اخراجات کا تعین اور ان کے مابین تناسب‘ یہ سارے کام مقننہ کو کرنے ہیں. اس سلسلے میں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اگر ہم فی الواقع دور حاضر میں اسلامی قانون کا نفاذ چاہتے ہیں تو اجتہاد کا دروازہ کھولنا ہو گا‘ جو ہم نے از خود کئی سو سال سے بند کرر کھا ہے.

اس ضمن میں ایک بات اور سمجھ لیجیے کہ ہمارا دین اللہ کا دیا ہوا دین ہے‘ اور اللہ تعالیٰ الحکیم ہے. چنانچہ ہمارے دین میں اصول یہ نہیں ہے کہ کوئی قانون سازی نہیں ہو سکتی جس کی جڑیں کتاب و سنت میں موجود نہ ہوں. ایسی صورت میں قانون سازی کا دائرہ بہت محدود ہو جاتا. بلڈنگ کنٹرول کے قوانین‘ ٹریفک کے قوانین‘ مختلف قسم کے لائسنسوں کے قوانین‘ ڈرائیونگ کے قوانین‘ جہاز رانی کے قوانین‘ سول ایوی ایشن کے قوانین‘ غرض یہ بے شمار قوانین کیسے بنائے جا سکتے؟ چنانچہ ہمارے دین میں اصول یہ دیا گیا ہے کہ آپ کتاب و سنت کے منافی کوئی قانون نہ بنائیں. اس طرح قانون سازی کا دائرہ بہت وسیع ہو گیا. ہمارے فقہاء کا اصول یہ ہے کہ ہر شے حلال ہے اِلّایہ کہ کسی چیز کی حرمت ثابت ہو جائے. اگر اصول یہ ہوتا کہ ہر شے حرام ہے اِلّا یہ کہ کسی چیز کا حلال ہونا ثابت ہو جائے تو حلال کا دائرہ بہت سکڑ جاتا‘ جب کہ حرام کا دائرہ بہت پھیل جاتا. چونکہ مباحات کا دائرہ بہت وسیع ہے اور مباحات کے دائرے میں قانون سازی کی جا سکتی ہے‘ اس لیے قانون سازی کا دائرہ بھی بہت وسیع ہے.