اسی بات کو علامہ اقبال نے کہا ہے کہ اب اجتہاد پارلیمنٹ کے ذریعے ہو گا. اگرچہ ان کی اس بات کو ان کے فرزند نے بہت الجھا کر فساد ذہنی پیدا کیا ہے‘ مگر میں علامہ اقبال کی اس بات کو صد فیصد درست مانتا ہوں‘ کیونکہ پارلیمنٹ کے ذریعے جو اجتہاد ہو گا وہ قرآن و سنت کے اندر رہتے ہوئے ہو گا. اجتہاد تو ہوتا ہی وہ ہے جو کتاب و سنت کے دائرے میں رہتے ہوئے ہو. اس بات کی ہر گز اجازت نہیں دی جا سکتی کہ پارلیمنٹ جو کچھ بھی پاس کر دے وہی دین بن جائے. اس لیے کہ اگر پارلیمنٹ کے اختیارات کو اتنی وسعت دے دی گئی تو حاکمیت پارلیمنٹ کے پاس چلی جائے گی‘ جب کہ اسلامی ریاست میں حاکمیت فقط اللہ تعالیٰ کو حاصل ہوتی ہے. اس کے برخلاف عوامی حاکمیت کا تصور تو کفر اور شرک ہے. ہمیں ’’عوامی حاکمیت‘‘ اور ’’عوامی خلافت‘‘ کے فرق کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے.

یہ ہے پارلیمانی اجتہاد کی اصولی اور عملی صورت! عہد ِحاضر کے ان چند اہم مسائل کو اچھی طرح سمجھ لینا ضروری ہے. جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا‘ اسلام میں مباحات کا دائرہ بہت وسیع ہے. چنانچہ ہو سکتا ہے کہ ایک معاملے میں مَیں یہ کہوں کہ یوں ہونا چاہیے‘ جب کہ کوئی دوسرا شخص اجتہاد کرتا ہے کہ معاملہ کسی دوسری طرح ہونا چاہیے‘ اور اس کے نزدیک اسی کی رائے اقرب الی السنۃ ہے‘ تو مندرجہ بالا صورت میں کس کا اجتہاد نافذ ہو گا؟ یہ بات پارلیمنٹ طے کرے گی. ظاہر ہے کہ مباحات کے بارے میں پارلیمنٹ طے کر سکتی ہے. ہاں وہ حرام کو حلال نہیں بنا سکتی. معاملہ اگر مباحات کا ہے تو اکثریت سے طے کر لیجیے‘ اس میں کوئی حرج نہیں ہے. لہذا یہ اصول تسلیم کرلینا چاہیے کہ ایسے معاملات کو پارلیمنٹ طے کرے گی. 

اسی بات کو ایک اور حوالے سے بھی سمجھا جا سکتا ہے. دورِ بنو عباس میں امام اعظمؒ پر دباؤ ڈالا گیا کہ قاضی القضاۃ کا عہدہ قبول کرلیں‘ آپ کے اجتہادات پر پورا نظام چلے گا‘ مگر امام ابوحنیفہؒ نے انکار کر دیا. (۱۲انکار اس لیے کیا کہ اسلامی قانون ابھی formative stage میں تھا. میں بھی اجتہاد کر رہا ہوں‘ دوسرے مجتہدین بھی ہیں‘ لہذا میں یہ حق اپنے لیے اختیار کرنے کو تیار نہیں ہوں کہ میرا ہی اجتہاد سب پر نافذ ہو جائے. امام ابوحنیفہؒ جانتے تھے کہ قوتِ نافذہ بادشاہ کے ہاتھ میں ہے اور وہ میرا انتخاب کر رہا ہے‘ اس لیے میرا اجتہاد نافذ ہو جائے گا.

اس کی ایک اور مثال یہ ہے کہ آج سے چند سو سال قبل اورنگزیب عالمگیر نے علماء کی ایک کمیٹی بنائی. اس کمیٹی نے اپنے دور کے مطابق فتاویٰ مرتب کر دیے‘ حالانکہ فتاویٰ اور فقہ کی کتابیں پہلے بھی موجود تھیں‘ لیکن حالات کی تبدیلی کے تحت اجتہاد کی ضرورت محسوس ہوئی. یہ بات پیش نظر رہے کہ علماء کو نامزد کیا گیا تھا. دورِ ملوکیت میں بادشاہ کو جو علماء پسند تھے انہی کو لا کر جمع کر دیا گیا. یہ منتخب ادارہ نہیں تھا‘ اس لیے کہ اُس وقت قوتِ نافذہ بادشاہ کے پاس تھی. آج قوتِ نافذہ ایک شخص کے پاس نہیں رہی‘ بلکہ پارلیمنٹ کے پاس چلی گئی ہے. چنانچہ آج وہی اجتہاد نافذ ہو گا اور قانون کا درجہ حاصل کرے گا جو پارلیمنٹ منظور کرے گی.