اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے نفاذ کاایک مرحلہ دستوری ہے. آپ نے اپنے دستور میں لکھ دیا کہ ہر شے پر قرآن و سنت کی بالادستی ہو گی. حاکمیت کے اس دستوری اقرار کے بعد اس کے نفاذ کا عملی مرحلہ باقی ہے. اس ضمن میں سورۃ النساء کی اس آیت سے رہنمائی ملتی ہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ ۚ فَاِنۡ تَنَازَعۡتُمۡ فِیۡ شَیۡءٍ فَرُدُّوۡہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ ذٰلِکَ خَیۡرٌ وَّ اَحۡسَنُ تَاۡوِیۡلًا ﴿٪۵۹﴾ 
’’اے ایمان لانے والو! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول  کی اور ان حکم والوں کی جو تم میں سے ہوں. پھر اگر تم میں کسی چیز کے بارے میں نزاع ہو جائے تو اس کو اللہ اور رسولؐکی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو. یہ (طریقہ) بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے اچھا ہے.‘‘

اس آیت سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ اللہ کی اطاعت اور رسول کی اطاعت تو مستقل اور غیر مشروط ہے‘ کیونکہ دونوں کے ساتھ اَطِیْعُوْا (امر کا صیغہ) الگ الگ وارد ہوا ہے. (۱۳
دوسری بات اس آیۂ مبارکہ سے یہ معلوم ہوئی کہ اولی الامر سے نزاع پیدا ہو جانے کی صورت میں فیصلے کے لیے معاملہ اللہ اور رسول  کی طرف لوٹانا ہو گا. گویا:

ا ) اولی الامر سے نزاع ممکن ہے‘ 
(۱۴جب کہ اللہ اور رسول  کی اطاعت بے چون و چرا کرنی ہے.
ب) نزاع کا فیصلہ اللہ اور رسول  کی طرف لوٹانا ہو گا.
مگر سوال یہ ہے کہ اللہ اور رسول  کی طرف لوٹانے کی صورت کیا ہو گی؟ نہ اللہ تعالیٰ خود فیصلے کے لیے موجود ہے نہ رسولؐ موجود ہے. 
(۱۵

عہدِحاضر کے دساتیر میں حکومت اور شہری کے درمیان یا مقننہ اور شہری کے درمیان متنازعہ امور میں فیصلے کا کام اسی طرح عدالتوں کے حوالے کر دیا گیا ہے جس طرح شہری اور شہری کے درمیان اختلاف کا فیصلہ عدالتوں ہی کے ذریعے انجام پاتا ہے.

چنانچہ کسی قانون یا اقدام کے بارے میں اگر یہ اختلاف پیدا ہو جائے کہ وہ کتاب و سنت کے دائرے کے اندر ہے یا نہیں تو اس نزاع کا فیصلہ دیگر جمہوری دستوروں کی طرح نظام خلافت میں بھی عدالتوں کے حوالے کیا جا سکتا ہے. اس سلسلے میں اصولی اجازت‘ ہدایت اور روشنی قرآن حکیم کی ان عمومی آیات اور احادیث مبارکہ سے حاصل کی جائے گی جن میں فصل خصومات و نزاعات کے حوالے سے عدل‘ غیرجانب داری اور کتاب وسنت کی پاسداری کے عمومی احکام موجود ہیں. (۱۶

اسی طرح اس آیت میں اولی الامر کی اطاعت کا حکم تو دیا گیا ہے مگر ان کے تقرر کے طریقے کو واضح نہیں کیا گیا ہے. تقرر کے طریقے کی وضاحت نہ ہونے کی حکمت یہی ہے کہ ہم اپنے تمدنی حالات کے لحاظ سے اور معاشرتی ارتقاء کے مطابق بہتر سے بہتر قابل عمل طریقہ خود اختیار کر سکیں. البتہ ایک بات تو یہ واضح کر دی گئی ہے کہ اولی الامر تم میں سے ہونے چاہئیں‘ غیروں میں سے نہیں. دوسری بات یہ کہ ان کے تقرر میں مشاورت کی روح موجود ہونی چاہیے.