پاکستانی دستور اور اسلامی دفعات

یہ بات پہلے بھی کہی جا چکی ہے کہ ہمارے آئین نے ایک اسلامی ریاست کے پہلے دستوری تقاضے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے اقرار کو قرار دادِ مقاصد کے ذریعے پورا کر دیا ہے. لیکن افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ایک مدت تک یہ قرار داد صرف دستور کا دیباچہ بنی رہی‘ دستور کے واجب العمل حصے میں نہ ہونے کی وجہ سے اس قرار داد کی بنیاد پر حکومت کے خلاف یا کسی قانون کے خلاف کوئی مقدمہ دائرنہ ہو سکتا تھا. پاکستان کی دستوری تاریخ میں پہلی مرتبہ ضیاء الحق مرحوم نے اس ضمن میں قدم اٹھایا اور دستور کے دیباچے سے نکال کر اس کو دفعہ ۲ (الف) کی صورت میں باقاعدہ دستور کا جزو بنا دیا.
ضیاء الحق مرحوم نے قرار دادِ مقاصد کو دستور کا جزو تو بنا دیا‘ مگر دستور کے اندر اس قرار داد سے متصادم جو دفعات تھیں ان کو رہنے دیا. اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سندھ ہائی کورٹ نے قرار دادِ مقاصد کو اوّلیت دے کر ایک فیصلہ کر ڈالا‘ جب کہ سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو یہ کہہ کر ردّ کر دیا کہ دستور کی تمام دفعات برابر ہیں‘ کسی دفعہ کو دوسری دفعہ پر فوقیت حاصل نہیں. چاہیے تو یہ تھا کہ جب قرار دادِ مقاصد کو دستور کا جزو بنا دیا گیا تھا تو اس سے متصادم دفعات کو دستور سے کھرچ دیا جاتا. کتاب و سنت کی بالادستی سے متعلق موجودہ دستور کی دفعہ ۲۲۷ کے الفاظ اس طرح ہیں:

All existing laws shall be brought in conformity with the injunctions of Islam as laid down in the Holy Quran and Sunnah, in this part referred to as the injunctions of Islam, and no law shall be enacted which is repugnant to such injunction 

انہی الفاظ سے ملتے جلتے الفاظ میں یہ شق ہر پاکستانی دستور میں شامل کی جاتی رہی ہے.

یقینا یہ الفاظ قرآن و سنت کی بالادستی کے اعتراف و اظہار کے لیے کافی ہیں. لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس دفعہ میں جو کچھ دیا گیا تھا وہ دستور کے اسی باب کی دوسری دفعات کے ذریعے واپس لے لیا گیا. دستور کی اس دفعہ پر عمل صرف اس طریقے پر ہو گا جس کی تفصیل اسی باب میں بتائی گئی ہے اور اس تفصیل کا اجمال یہ ہے کہ حکومت ایک اسلامی نظریاتی کونسل نامزد کرے گی جو:

۱) موجودہ قوانین میں سے ان قوانین یا قوانین کے ان حصوں کی نشاندہی کرے گی جو کتاب و سنت سے متصادم ہیں. 

۲) پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی اگر کسی مجوزہ قانون کے بارے میں دریافت کرے کہ یہ قانون یا اس کا کوئی حصہ کتاب و سنت سے متصادم تو نہیں ہے تو وہ اس کو اپنے مشورے سے مطلع کرے گی. واضح رہے کہ کوئی مجوزہ قانون اسلامی نظریاتی کونسل کو صرف اسی وقت بھیجا جائے گا جب اسمبلی کے کم از کم ۲۰ فیصد ارکان اس کی ضرورت محسوس کریں.

۳) جب صدر یا کسی صوبے کا گورنر (گویا مرکزی یا صوبائی حکومت) کوئی قانون اسلامی نظریاتی کونسل کو مشورے کے لیے ارسال کرے تو وہ اپنا مشورہ ارسال کرے گی. لیکن ان تمام صورتوں میں اسلامی نظریاتی کونسل جو مشورہ دے گی اس کی حیثیت صرف سفارش کی ہو گی. پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی کو اختیار ہو گاکہ وہ اس مشورے کو مان لے یا مسترد کر دے. اسی طرح حکومت بھی مشورے کی پابند نہ ہو گی.

گویا کسی قانون کو قرآن و سنت کے خلاف قرار دینے کا حتمی اختیارمکمل طو رپر منتخب ایوانوں پر منحصر ہے.

اس صورتحال میں ضیاء الحق مرحوم نے دستوری سطح پر اسلام کی طرف پیش رفت کے ضمن میں ایک اور کام بھی کیا‘ لیکن انتہائی نیم دلی کے ساتھ . اگرچہ یہ پیش رفت صحیح سمت میں تھی لیکن تمام تقاضے پورے نہیں کیے گئے. وہ پیش رفت وفاقی شرعی عدالت کا قیام تھا. اس عدالت کو اختیار دیا گیا کہ وہ از خود یا کسی شہری کی درخواست پر کسی رائج قانون کے بارے میں فیصلہ کرے کہ آیا وہ کتاب و سنت سے متصادم ہے‘ اور متصادم ہونے کی صورت میں حکومت کو متعین وقت دے ‘جس کے اندر وہ یا تو اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کے شریعت بنچ میں اپیل کرے یا اس قانون کو کتاب و سنت کے مطابق بنائے. مقررہ مدت میں اگر حکومت نے ان دونوں کاموں میں سے کوئی بھی کام نہ کیا تو مدت گزرنے کے بعد وہ قانون خود بخود کالعدم ہو جائے گا.

لیکن اس عدالت کے قیام میں:

۱) ایک غلطی تو یہ کی گئی کہ اس کے لیے بالکل علیحدہ عدالت بنائی گئی‘ حالانکہ اس کو ملک کے نظامِ عدلیہ کے ساتھ ہی رکھنا چاہیے تھا.

۲) دوسری غلطی یہ کی گئی کہ اس عدالت کا درجہ دوسری اعلیٰ عدالتوں سے کم رکھا گیا. ججوں کا تقرر صرف ۳ سال کے لیے کیا گیا اور ان کو برخاست کرنے کا اختیار بھی رکھا گیا. اس طرح یہ عدالت حکومت کے دباؤ سے آزاد ہو کر فیصلے کرنے کے قابل نہ رہی.
۳) تیسری زیادتی یہ کی گئی کہ اس عدالت کے ہاتھوں میں دو ہتھکڑیاں اور پاؤ ں میں دو بیڑیاں پہنا دی گئیں. پہلی ہتھکڑی یہ کہ دستورِ پاکستان اس عدالت کے دائرے سے باہر کر دیا گیا. دوسری ہتھکڑی یہ کہ عدالتی قوانین و ضوابط یعنی

Any law relating to the procedure of any court or tribunal 

بھی اس کے دائرے سے باہر ہیں. ان کے علاوہ دو بیڑیاں یہ تھیں کہ مسلم عائلی قوانین اس عدالت کے دائرے سے باہر ہیں اور دس سال تک مالی قوانین بھی اس عدالت کے دائرے سے باہر رکھے گئے. چنانچہ ان کے خلاف بھی اس عدالت کا دروازہ نہیں کھٹکھٹایا جا سکتا.

یہی وجہ ہے کہ یہ ساری پیش رفت عملاً بیکار ثابت ہوئی‘ کیونکہ قرآن مجید میں سب سے زیادہ تفاصیل تو عائلی قوانین ہی کے بارے میں موجود ہیں. آپ حیران ہوں گے کہ انگریز نے بھی اپنے زمانے میں ان قوانین کو نہیں چھیڑا تھا اور بھارت کے مسلمانوں نے بھی اپنے عائلی قوانین کے لیے تحفظ حاصل کر لیا. لیکن ہمارے ملک کے ایک چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر (محمد ایوب خان) نے ایک منکر ِحدیث کے بنائے ہوئے قوانین نافذ کر دیے‘ وہ اس کے گیارہ سالہ دور میں نافذ رہے او راب تک نافذ ہیں. البتہ ایک ہتھکڑی جو ایک مقررہ وقت تک کے لیے تھی وہ دس سال پورے ہونے پر کھل گئی. لہذا وفاقی شرعی عدالت نے وہ تاریخی فیصلہ دے دیا کہ بینک کا سود بھی ربا ہے. میرے نزدیک یہ قرار دادِ مقاصد کے درجے کا اہم فیصلہ ہے‘ مگر آئی جے آئی کی حکومت نے اس کے خلاف سپریم کورٹ کے شریعت بنچ میں اپیل دائر کر دی جو اب تک زیر سماعت ہے. (۱۷)

گلۂ جفائے وفا نما کہ حرم کو اہل ِحرم سے ہے
کسی بتکدے میں بیاں کروں تو کہے صنم بھی ہری ہری

اس صورت حال سے میں نتیجہ یہ اخذ کر رہا ہوں کہ کہنے کو تویہ بات آسان ہے کہ دستور میں قرآن و سنت کی بالادستی کی دفعہ شامل کر دی جائے لیکن ہے یہ بہت کڑوی گولی جس کو حلق سے اتار کر ہضم کرنا بہت ہی مشکل ہے.