مگر یہ بات نوٹ کرنے کے لائق ہے کہ صرف نظری طور پر (یا زبا نی دعوے کے مطابق) یہ سب برابر کے شہری ہیں‘ ورنہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں گوروں اور کالوں کے درمیان فرق و تفاوت کی جو خلیج حائل ہے اسے کون نہیں جانتا. اسی طرح بھارت میں جو دنیا کا سب سے بڑا سیکولر ملک ہونے کا مدعی ہے‘ شودر اور برہمن کے فرق سے پوری دنیا آگاہ ہے. وہاں یہی معاملہ مسلم اور غیر مسلم کا بھی ہے. یہ الگ بات ہے کہ نظریاتی طور پر بھارتی دستور یہی کہتا ہے کہ ہر بھارتی برابر کا شہری ہے.

عہد ِحاضر کے پُرفریب افکار و نظریات میں سے ایک ’’مساوی شہری‘‘ ہونے کا یہ تصور ایسا دلفریب ہے کہ اس کے مقابلے میں کوئی اور تصور نگاہوں میں جچتا ہی نہیں. لیکن یہ بات لازمی ہے کہ اگر آپ نظامِ خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں تو مخلوط قومیت کی نفی کرنا ہو گی. (۱۸اس موقع پر یہ بات بھی نوٹ کرنی چاہیے کہ ’’جداگانہ قومیت‘‘ ہی پاکستان کی ماں ہے. اسی نظریہ کے بطن سے پاکستان نے جنم لیا ہے. پاکستان وطنی قومیت کی نفی کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا. مسلم لیگ کاکانگریس کے ساتھ جھگڑاہی یہ تھا کہ مسلمان جداگانہ قومیت رکھتے ہیں‘ جب کہ کانگریس کا موقف یہ تھا کہ ہندوستان میں بسنے والے تمام افراد ‘خواہ وہ ہندو‘ مسلم‘ سکھ‘ عیسائی اور پارسی ہوں‘ سب ایک قوم ہیں‘ جبکہ ہم نے کہا کہ ہم اس بات کو صحیح نہیں مانتے ‘ہماری قومیت ہمارے مذہب کے ساتھ وابستہ ہے. اسلامی تعلیمات کی رو سے اسلامی ریاست میں غیر مسلم کی حیثیت ذِمی کی ہے. بدقسمتی سے مغرب نے ہمارے ساتھ بہت بڑا داؤ کھیلا ہے. چنانچہ ہماری ہر وہ چیز جو اسے پسند نہیں تھی اسے گالی بنا کر رکھ دیا ہے. اس کا مزید الم ناک پہلو یہ ہے کہ اس گالی کو مغرب نے اتنا اچھالا کہ اپنے بھی کہنے لگے کہ ہم کب ایسا کہتے ہیں‘ ہم پر تویہ خواہ مخواہ کی تہمت ہے. حالانکہ ’’ذمی‘‘ کوئی قابل مذمت اصطلاح نہیں‘ یہ تو درحقیقت لفظ ’’ذِمہ‘‘ سے بنا ہوا ہے‘ اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ اسلامی ریاست یا نظامِ خلافت غیر مسلموں کی جان‘ مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کا ذمہ لیتا ہے.

ایک اعتبار سے تو ’’ذِمی ‘‘مسلمان کو بھی کہا گیا ہے. چنانچہ مسلمان ہونے کی کم سے کم شرائط بیان کرنے کے بعد نبی نے فرمایا : فَذٰلِکَ الْمُسْلِمُ الَّذِیْ لَــہٗ ذِمَّۃُ اللہِ وَذِمَّۃُ رَسُوْلِہٖ (صحیح البخاری) ’’تو یہ ہے وہ مسلمان جس کے لیے اللہ کا ذمہ ہے اور اس کے رسولؐ کا ذمہ ہے‘‘. (۱۹