نظام خلافت میں غیر مسلموں کے حقوق اور پابندیاں

آیئے اب دیکھیں کہ نظام خلافت میں غیر مسلموں کو کون کون سے حقوق حاصل ہوتے ہیں اور کہاں کہاں ان پر تحدید ہے. پہلے ہم غیر مسلموں پر عائد بندشوں کو بیان کرتے ہیں. 

۱) کوئی غیر مسلم خلیفہ (سربراہ مملکت) نہیں ہو سکتا. یہ بات عہد ِحاضر میں بھی تسلیم کی جاتی ہے‘ چنانچہ دستوری سطح پر طے کر دیا جاتا ہے کہ ریاست کا سربراہ مثلاً مسلمان ہوگا یا عیسائی ہو گا (بلکہ یہاں تک کہ عیسائیوں کے فلاں فرقے سے ہوگا)‘ لیکن یہ پابندی اس ملک کے سرکاری مذہب کی بناء پر لگائی جاتی ہے. لیکن یہاں یہ معاملہ ہے کہ خلافت اگرچہ اللہ نے پوری نوعِ انسانی کو دی تھی‘ لیکن نوع انسانی میں جو حاکمیت کے مدعی بن کر کھڑے ہو گئے (یا جنہوں نے غیر اللہ کی حاکمیت تسلیم کر لی) تو ان کا حق ِخلافت چھین لیا گیا‘ لہذا خلافت اب صرف مسلمان کی ہے اور غیر مسلم خلیفہ نہیں ہو گا.

۲) کوئی غیر مسلم مقننہ کارکن نہیں بن سکے گا‘ اس لیے کہ نظام خلافت میں قانون سازی کا دارو مدار کتاب و سنت پر ہے ‘اور جو شخص نہ کتاب اللہ کو مانے نہ سنت کو‘ وہ قانون سازی میں کیسے شریک ہو سکتا ہے!!

۳) ریاست کے پالیسی بنانے والے اہم اداروں کی رکنیت بھی غیر مسلم کو نہیں دی جائے گی. اس کی وجہ بھی صاف ظاہر ہے کہ جب کہیں نظام خلافت قائم ہو گا تو اس کی اوّلین ترجیح (top most priority) یہ ہو گی کہ اس نظام کو پوری دنیا میں پھیلانا ہے. اب آپ خود سوچیے کہ کوئی غیر مسلم اس پالیسی کی تشکیل اور نفاذ میں معاون و مددگار کیسے بن سکتاہے. ظاہر ہے کہ غیر مسلم نظریاتی بنیاد پر قائم اس نظام خلافت کے قائل ہی نہیں ہیں‘ لہذا وہ تو اس کے راستے میں روڑے ہی اٹکائیں گے.

اس اعتبار سے یہ تینوں ادارے غیر مسلم کے لیے out of bounds ہیں.
اب ہم ان حقوق کا ذکر کرتے ہیں جو غیر مسلموں کو نظام خلافت کے تحت حاصل ہوں گے:

۱) غیر مسلموں کی جان و مال اور عزت و آبرو اتنی ہی محفوظ ہو گی جتنی کسی مسلمان کی ہوتی ہے. گویا اس معاملے میں مسلم اور غیر مسلم کے درمیان کوئی فرق روا نہیں رکھا جائے گا.

۲) ان کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہو گی ـ .

۳) ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت مساجد سے بڑھ کر کی جائے گی. مساجد سے بڑھ کر حفاظت کرنے کی بات پر ممکن ہے کہ آپ چونکیں‘ لیکن میری بات کی ایک دلیل تو قرآن حکیم میں ہے اور دوسری دلیل خلیفۂ راشد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عمل سے ہے. سورۃ الحج میں اللہ تعالیٰ نے اپنا ایک قانون بیان کیا ہے کہ: 

وَ لَوۡ لَا دَفۡعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعۡضَہُمۡ بِبَعۡضٍ لَّہُدِّمَتۡ صَوَامِعُ وَ بِیَعٌ وَّ صَلَوٰتٌ وَّ مَسٰجِدُ یُذۡکَرُ فِیۡہَا اسۡمُ اللّٰہِ کَثِیۡرًا ؕ (الحج:۴۰)

’’اگر اللہ تعالیٰ وقتاً فوقتاً کچھ لوگوں کے ذریعے کچھ دوسرے (ظالم) لوگوں کو ہٹاتا نہ رہتا تو یہ خانقاہیں‘ گرجے‘ عبادت گاہیں اور مسجدیں منہدم کر دی جاتیں جن کے اندر اللہ کے نام کا بہت ذکر کیا جاتا ہے.‘‘
اس آیت مبارکہ میں دیکھئے‘ دوسری عبادت گاہوں کا ذکر پہلے ہے جب کہ مسجد کا ذکر آخر میں ہے.
دوسری دلیل حضرت عمررضی اللہ عنہ کا وہ عمل ہے جو بیت المقدس کی فتح کے موقع پر سامنے آیا. آپؓ گرجا میں تھے کہ نماز کا وقت ہو گیا. گرجے کے منتظمین نے آپؓ سے کہا یہیں نماز ادا کر لیجیے. حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ہرگز نہیں‘ اگر میں نے یہاں نماز پڑھ لی تو مسلمان اس جگہ کو مسجد بنا لیں گے کہ عمرؓ نے یہاں نماز پڑھی ہے.‘‘ آپؓ نے گرجا سے باہر نکل کر اس مقام پر نماز ادا کی جہاں بعد میں مسجد عمرؓ تعمیر ہوئی.

۴) غیر مسلموں کو اپنے personal law پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہو گی. چنانچہ شادی بیاہ‘ نکاح و طلاق اور وراثت کا نظام وہ اپنے مذہب کے مطابق طے کریں گے.
۵) ان کو یہ آزادی ہو گی کہ وہ اپنی آنے والی نسل کو اپنے مذہب کی جس طرح چاہیں تعلیم دیں‘ البتہ مسلمانوں میں تبلیغ کی ہرگز اجازت نہیں ہو گی. 
(۲۰)

۶) ان کو تجارت کرنے اور صنعت و حرفت میں حصہ لینے کی مکمل آزادی ہو گی. نیز غیر مسلموں کو پورے مواقع حاصل ہوں گے کہ وہ اپنی اہلیت کی بنیاد پر سرکاری ملازمتیں حاصل کریں‘اگرچہ اس ضمن میں پالیسی تشکیل دینے والے ادارے مستثنیٰ ہوں گے. ہر محکمے میں ایک اعلیٰ ترین سطح وہ ہوتی ہے جہاں پر grand policy بنائی جاتی ہے. اس بلند تر سطح پر تو پابندی ہو گی‘ البتہ اس سے نیچے تمام شعبوں میں ملازمت کے مواقع غیر مسلموں کو بھی مسلمانوں کی طرح حاصل رہیں گے.

غیر مسلموں کے حوالے سے ایک آخری اہم بات یہ ہے کہ صدارتی نظام میں اس بات کا امکان بھی ہے کہ مقننہ کارکن نہ بن سکنے کے باوجود غیر مسلم کو کوئی وزارت بھی دے دی جائے. جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے کہ نظام خلافت کے تحت اسلامی ریاست کا باضابطہ اور مکمل شہری صرف مسلمان ہو گا‘ کیونکہ نظام خلافت غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت کے باوجود ان پر بہرحال کچھ پابندیاں بھی عائد کرتا ہے. جدت پسند لوگ اس پر یہ پھبتی بھی چست کریں گے کہ اس طرح تو وہ دوسرے درجے کے شہری (second-rate citizen) بن کر رہ جائیں گے. مگر میں نے اس سلسلے میں اسلام کی اصولی پوزیشن واضح کر دی ہے‘ جس کو محض طعنوں کے خوف سے ترک نہیں کیا جا سکتا.