یہاں جزیہ کے حوالے سے بھی چند باتیں سمجھ لینی چاہئیں. اس لفظ کو بھی گالی بنا دیا گیا ہے. جزیہ جزا سے بنا ہے‘ چنانچہ ہمارے ہاں جتنا بھی taxation کا نظام ہے وہ سب جزیہ ہی تو ہے. اسلامی نظامِ خلافت میں غیر مسلموں سے زکوٰۃ وصول نہیں کی جا سکتی‘ چنانچہ ان سے جزیہ و صول کیا جائے گا. ظاہر ہے کہ غیر مسلم بھی اس ملک کا شہری ہے اور ریاست نے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے. ریاست جو ذمہ داری لے رہی ہے اس کے عوض اس سے ٹیکس وصول کرے گی. وہ ٹیکس یہ جزیہ ہے. بدقسمتی سے یہ تمام چیزیں ہماری نگاہوں سے اوجھل اس لیے ہو گئی ہیں کہ آج پوری دنیا میں مسلمان خود جزیہ دے رہا ہے. اس وقت پوری دنیا میں ٹیکس کا نظام رائج ہے‘ اسے ہم زکوٰۃ نہیں کہہ سکتے بلکہ جزیہ ہی سے تعبیر کیا جائے گا. جب نظامِ خلافت کے تحت اسلام کا اقتصادی نظام قائم کیا جائے گا تو موجودہ ڈھانچہ مکمل طور پر بدل جائے گا. اس وقت تک ہم ریاست کو اس تحفظ کی ضمانت کے عوض جو ہمیں ریاست کی طرف سے حاصل ہے ’’جزیہ‘‘ دے رہے ہیں‘ جسے ٹیکس کہا جاتا ہے.