(۱) اسی کی خوبصورت تعبیر علامہ اقبال نے یوں کی ہے: ؎ 

سروری زیبا فقط اُس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی باقی بتانِ آزری

(۲) یا پھر بغاوت

(۳) بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ باغی نے خلافت کا حق خود ہی چھوڑ دیا.

(۴) اس سلسلے میں ہمارے ملک کی دستوری تاریخ میں ایک دلچسپ واقعہ بھی پیش آ چکا ہے. مشہور ماہر قانون اے کے بروہی کہیں یہ کہہ بیٹھے کہ جو شخص یہ ثابت کر دے کہ قرآن حکیم میں دستوری خاکہ موجود ہے‘ میں اسے ایک ہزار روپیہ انعام دوں گا. ان کی بات ایک اعتبار سے صحیح تھی. ظاہر ہے کوئی تفصیلی دستوری خاکہ تو قرآن حکیم میں موجود نہیں ہے‘ قرآن حکیم نے تو صرف اصول دیے ہیں. قرآن نے نہ صدارتی نظام دیا ہے نہ پارلیمانی‘ نہ وفاقی نظام دیا ہے نہ وحدانی. بات تو بروہی صاحب کی اس حوالے سے درست ہی تھی‘ مگر سیاسی دباؤ کی وجہ سے وہ اپنی بات پر قائم نہ رہ سکے.

(۵)اس نظام سے اعلیٰ نظام تو ممکن ہی نہیں ہے. اپنوں کے علاوہ غیروں نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے… ۱۹۳۷ء میں گاندھی اپنے وزراء کو ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہماکے نقش قدم پر چلنے کی تلقین کر رہا ہے. اسے کہتے ہیں جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے (الفضل ماشھدت بہ الاعداء ). مگر اس کے بعد ہم نے محل سجائے اور عیاشیاں شروع کر دیں. علامہ اقبال نے اپنی مشہور نظم میں ابلیس کی زبان سے کہلوایا ہے : ؎ 

جانتا ہوں میں یہ اُمت حامل قرآں نہیں
ہے وہی سرمایہ داری بندۂ مومن کا دیں
جانتا ہوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں

بے ید بیضا ہے پیرانِ حرم کی آستیں!
(۶)تم (آج) جہاں کہیں رنگ و بو کی وہ دنیا دیکھتے ہو جس کی خاک سے ’’آرزو‘‘ نشوونما پاتی ہے‘ وہ یا تو نور مصطفی  سے روشن ہے یا اب تک تلاشِ مصطفی  میں سرگرم ہے.

(۷) ’’صاف کو لے لو‘ گندے کو چھوڑ دو ‘‘(عربی مثل ہے)

(۸) بہتر یہ ہے کہ (ان علوم کو) مسلمان کر لو. (اور) قرآن کی شمشیر سے (ان کے کفر کو) مار دو.

(۹) ثنویت (دوئی) دو خدا ماننے والوں کا عقیدہ

(۱۰۱۹۹۱ء کے انتخابات

(۱۱) ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ہم جس ملک میں رہ رہے ہیں اس میں دستوری سطح پر اللہ کی حاکمیت کا اعلان کیا گیا ہے. پوری دنیا میں یہ صرف ایک ہی ملک ہے جس کو یہ اعزاز حاصل ہے. ان لوگوں کے لیے دعا کرنی چاہیے جن کی کوششوں سے ’’قراردادِ مقاصد‘‘ پاس ہوئی. یہ ’’قراردادِ مقاصد‘‘ بڑے مشکل حالات میں منظور ہوئی تھی. جماعت اسلامی جب یہ مطالبہ لے کر اٹھی تھی تو ایوان میں صرف مسلم لیگی ارکان (یا ہندو) تھے‘ اور جب یہ قرار داد پاس ہوئی تو ان مسلم لیگی ارکان میں سے بعض نے کہا تھا: ’’اس قرار داد کی وجہ سے دنیا کے سامنے ہمارے سر ندامت سے جھک گئے ہیں کہ ہم نے ایسی رجعت پسندانہ قرار داد پاس کی. ہم مہذب دنیا سے آنکھیں چار کرنے کے لائق نہ رہے.‘‘ ؏ ’’کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں!‘‘

(۱۲)امام ابو حنیفہؒ کا یہ انکار ان کی عظمت کی دلیل ہے اور وہ سید الطائفہ اور امام اعظم کہلانے کے مستحق ہیں.

(۱۳)یہ قرآنی بلاغت کا اعجاز ہے کہ اللہ اور رسولؐ دونوں کے ساتھ لفظ اَطِیْعُوْا کی تکرارہے‘ لیکن اولی الامر کی اطاعت کو علیحدہ لفظ سے واضح کرنے کے بجائے اس کو اللہ کی اطاعت اور رسول کی اطاعت پر عطف کر کے ظاہر کیا گیا ہے‘ کیونکہ اولی الامر کی اطاعت پہلی دونوں اطاعتوں کے ماتحت ہے.
جب کہ اگر یوں کہا جاتا کہ ’’اطاعت کرو اللہ کی‘ اس کے رسول کی اور اپنے اولی الامر کی‘‘ تو یہ گویا آخری دونوں اطاعتیں اللہ کی اطاعت کے ماتحت ہو جاتیں یا یوں کہیے کہ بریکٹ کے باہر کی رقم بریکٹ کے اندر کی ساری رقم سے ضرب کھا جاتی ہے.

(۱۴)جس کی مثلاً ایک صورت یہ ہے کہ اولی الامر اپنے کسی حکم کو شریعت کے دائرے کے اندر قرار دیں‘ مگر کوئی شہری اس حکم کو شریعت کے دائرے سے خارج قرار دیتا ہو.

(۱۵)میں نے یہ الفاظ پورے شعور کے ساتھ کہے ہیں. درحقیقت اس آیت میں دو خلا ہیں. یہ الفاظ (نعوذ باللہ) کسی بے ادبی کے تحت نہیں کہہ رہا ہوں‘ بلکہ یہ دونوں خلا اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کی بنا ء پر چھوڑے ہیں. قرآن مجید بہت سی مصلحتوں کی بنا پر بعض خلا چھوڑ دیتا ہے. اس نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اسی لیے کہا ہے کہ ’’اے مسلمانو! ایسی باتوں کے بارے میں نہ پوچھو جو اگر ظاہر کر دی جائیں تو تم کو تکلیف دیں (تاہم) اگر نزولِ قرآن کے وقت تم سوال کرو گے تو ان باتوں کو ظاہر کر دیا جائے گا.‘‘
گویا ہو سکتا ہے کہ اس طرح تم اپنے اوپر کئی پابندیاں خود عائد کرنے کا موجب بن جاؤ جیسے ایک صحابیؓ نے خطاب کے دوران نبی  سے دریافت کیا: حضور!کیا حج ہر سال فرض ہے؟ آپ ؐ خاموش رہے. دوسری مرتبہ پوچھنے پر آپؐ نے فرمایا:’’ اگر میں کہہ دیتا کہ ہر سال تو ہر سال فرض ہو جاتا. اس لیے خواہ مخواہ سوالات مت کرو.‘‘
اس آیت کے اندر جو دو خلا ہیں ان میں سے پہلا خلا یہ ہے کہ:

۱)یہ اولی الامر آئیں گے کہاں سے؟ رسول اللہ  کے نامزد ہوں گے؟ مسلمان ان کو اپنی مرضی سے منتخب کریں گے؟ خود مسلط ہو جائیں گے؟ کوئی طاقتور خاندان‘ گروہ یا فوجی تنظیم ان کو نامزد کرے گی؟ ان سب سوالوں کا واضح جو اب قرآن میں موجود نہیں ہے. اگر تعامل دیکھا جائے تو:

ا)نبی  نے کسی کو نامزد نہیں کیا تھا‘ صرف بعض اشارے کیے تھے.
ب)حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے (شوریٰ کے مشورے سے) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جانشین نامزد کر دیا.
ج) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے امت کے اتفاق عام کو محسوس کر کے چھ آدمیوں کی کمیٹی نامزد کر دی.
د)حضرت علی رضی اللہ عنہ کو تمام عالم اسلام کے لیے صرف اہل مدینہ نے منتخب کر لیا‘ کیونکہ یہ دارالخلافہ اور سیاسی مرکز تھا.

ہ)بعد میں خاندانوں کے اندر سے حکمران آنے لگے.
تو اب یہ مختلف صورتیں ہو گئیں‘ بلکہ یہ بھی ہوا کہ بابر آیا اور ابراہیم لودھی کو بے دخل کر کے بزور تخت دہلی پر بیٹھ گیا. یعنی متغلب حکمران بھی آئے. ہمارے فقہاء نے متغلب کی اطاعت بھی لازم ٹھہرائی ہے‘ بشرطیکہ وہ کتاب و سنت کے مطابق حکم چلائے اور امن وامان قائم کر دے. ڈاکٹر جاوید اقبال نے اس پر فقہاء کے بڑے لتے لیے ہیں. لیکن اگر اس عملی صورت کو تسلیم نہ کیا جائے تو کیا بغاوت پر بغاوت ہوتی رہے؟ آخر ہماری اعلیٰ عدالت نے بھی تو نظریۂ ضرورت کے تحت مارشل لاء کی حکمرانی تسلیم کی. عدالت فوج سے لڑ تو نہ سکتی تھی. یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم نے 
’’اولی الامر‘‘ کی تقرری کا معاملہ کھلا رکھا ہے‘ البتہ ایک بات واضح کر دی کہ یہ اولی الامر تم میں سے ہونے چاہئیں‘ جن کی تقرری کی آئیڈیل صورت یہی ہے کہ وہ مسلمانوں کے مشورے سے آئیں. چنانچہ یہ اصول دے دیا وَ اَمۡرُہُمۡ شُوۡرٰی بَیۡنَہُمۡ یعنی مسلمانوں کا (ہر اجتماعی) معاملہ باہم مشاورت سے ہونا چاہیے.

(۲) سورۃ النساء کی مندرجہ بالا آیت میں دوسرا خلا یہ ہے کہ جب اولی الامر کسی معاملے کو کتاب وسنت کے مطابق خیال کرے اور کسی عام شہری کے نزدیک وہ معاملہ کتاب و سنت کے مطابق نہ ہو تو فیصلہ کون کرے گا؟ اس کی کئی صورتیں ممکن ہیں:

ا) شہری دلائل کے ساتھ اپنی رائے کا اظہار کرے اور اولی الامر اس کی رائے کو مان لے. مثلاً مہر کی تحدید کے بارے میں ایک عورت کا الفاظِ قرآنی وَّ اٰتَیۡتُمۡ اِحۡدٰہُنَّ قِنۡطَارًا سے استدلال سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی رائے سے رجوع کر لیا.

ب) شہری اولی الامر کے استدلال سے مطمئن ہو جائے‘ جیسا کہ مانعین زکوٰۃ کے خلاف جہاد کرنے کے فیصلے سے حضرت عمر رضی اللہ عنہاور دیگر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے استدلال کو سن کر مطمئن ہو گئے. ج)عام شہری اپنی رائے کے سلسلے میں علماء اور اہل شوریٰ سے رجوع کر لے اور ان کی بات قبول کر لے.

د) علماء اور اہل شوریٰ اولی الامر کو ان کی غلطی پر متنبہ کر کے ان کو اپنی رائے چھوڑنے پر مجبور کریں.
لیکن ان میں سے کوئی طریقہ بھی باضابطہ نہیں کہا جا سکتا. البتہ عہد حاضر کے جدید اسٹیٹ کرافٹ میں عدلیہ نے اس خلا کو باضابطہ طو رپر پُر کیا ہے. چنانچہ اگر آج ملکی دستور میں لکھ دیا جاتا ہے کہ کوئی قانون سازی کتاب و سنت کے منافی نہیں ہوگی اور ملک کی پارلیمنٹ ایک قانون بناتی ہے جو پارلیمنٹ کی رائے کے مطابق قرآن و سنت کے دائرے کے اندر اندر ہے‘ لیکن کوئی عام شہری یہ بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہے تو اب شہری کو ثابت کرنا ہو گا کہ کتاب و سنت سے تجاوز ہوا ہے. مگر یہ شہری کہاں جائے گا؟ وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے گا‘ کیونکہ عہد حاضر میں عدلیہ کو دستور کا محافظ بنایا گیا ہے. دستور میں جن بنیادی شہری حقوق کو مہیا کیا جاتا ہے ان کی حفاظت بھی عدالت عالیہ کی ذمہ داری ہے. چنانچہ ایک شہری ڈپٹی کمشنر یا ایس پی کے خلاف رٹ دائر کر سکتا ہے کہ اس نے میرے دستوری حقوق پر ڈاکہ ڈالا ہے.
جیسا کہ ہم نے دیکھا سورۃ النساء کی مذکورہ بالا آیت میں یہ دو خلا موجود ہیں لیکن یہ خلا حکمت کے تحت رکھے گئے ہیں. اب اس حکمت کو بھی سمجھ لیجیے. دراصل نزول قرآن کے وقت عمرانی ارتقاء کا عمل 
(process of social evolution) ابھی جاری تھا. اس وقت لوگ ریاست اور حکومت کے فرق تک کو نہیں سمجھتے تھے‘ نہ فن حکمرانی (state craft) کے مطابق ریاست کے تین گوشے… مقننہ‘ انتظامیہ اور عدلیہ… نوعِ انسانی پر ابھی منکشف ہوئے تھے. لہذا قرآن حکیم نے ان تمام چیزوں کو accommodate کرنے کے لیے خلا چھوڑ دیا. اگر تمام باتیں پہلے سے طے کر دی جاتیں تو شاید ہم زمانے کا ساتھ نہ د ے سکتے.

یہی وجہ ہے کہ چین کی پرانی تہذیب کی طرح عورتوں کے پیروں کو چھوٹا رکھنے کے لیے بچپن میں ان کو لوہے کے جوتے پہنانے کا طریقہ ہماری شریعت نے نہ اپنایا کہ عمرانی ارتقاء کو روکنے والے تفصیلی احکام دے کر ہم کو ایک مخصوص عہد کا پابند بنا دیا جاتا‘ بلکہ احکام وہ دیے جن میں لچک اور وسعت ہے اور جو عمرانی ارتقاء کے کسی مرحلے میں رکاوٹ نہیں ثابت ہوتے.

غرض یہ کہ عدالت اگر کسی قانون یا اقدام کے بارے میں یہ فیصلہ دے دیتی ہے کہ وہ کتاب وسنت کے خلاف نہیں ہے تو خواہ وہ قانون کسی کو پسند ہو یا نا پسند اسے ماننا پڑے گا‘ کیونکہ دائرۂ مباحات میں پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حق ہے. چنانچہ پارلیمنٹ کے اجتہاد کا یہ مسئلہ انتہائی سادہ ہے‘ مگر ہمارے بعض جدت پسند اور مغرب گزیدہ دانشوروں نے خواہ مخواہ اسے چیستاں بنا کر رکھ دیا ہے.

(۱۶) مثلاً چند آیات ملاحظہ ہوں:

(۱فَاحۡکُمۡ بَیۡنَہُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ (المائدۃ:۴۸)
’’پس تو فیصلہ کر ان کے درمیان اس چیز کے مطابق جو اللہ نے نازل کی.‘‘

(ب) وَ اِنۡ حَکَمۡتَ فَاحۡکُمۡ بَیۡنَہُمۡ بِالۡقِسۡطِ ؕ (المائدۃ:۴۲)
’’اور اگر تو فیصلہ کرے تو ان کے درمیان فیصلہ کر انصاف کے ساتھ.‘‘

(ج) وَ اِذَا حَکَمۡتُمۡ بَیۡنَ النَّاسِ اَنۡ تَحۡکُمُوۡا بِالۡعَدۡلِ ؕ (النساء: ۵۸)
’’اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلے کرو تو عدل کے ساتھ فیصلے کرو.‘‘

(د) اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ لِتَحۡکُمَ بَیۡنَ النَّاسِ بِمَاۤ اَرٰىکَ اللّٰہُ ؕ (النساء: ۱۰۵)
’’ہم نے تیری طرف کتاب حق کے ساتھ نازل کی تاکہ تو لوگوں کے درمیان اس بصیرت کے مطابق فیصلہ کرے جو اللہ نے تجھے دی ہے.‘‘

(ہ) وَ اِنۡ خِفۡتُمۡ شِقَاقَ بَیۡنِہِمَا فَابۡعَثُوۡا حَکَمًا مِّنۡ اَہۡلِہٖ وَ حَکَمًا مِّنۡ اَہۡلِہَا ۚ (النساء: ۳۵)
’’اور اگر تم کو ان دونوں (میاں بیوی) کے درمیان اختلاف (بڑھ جانے) کا اندیشہ ہو تو مقرر کرو ایک فیصلہ کرنے والا شوہر کے خاندان سے اور ایک بیوی کے خاندان سے.‘‘

اس سلسلے میں آیات اور احادیث بکثرت ہیں جن کے مطابق عدالتوں کو کتاب و سنت اور انصاف پر مبنی فیصلے کرنے کی واضح ذمہ داری حوالے کی گئی ہے.

(۱۷) اور پی پی پی کی حکومت نے سپریم کورٹ کی شریعت بنچ کے دونوں ججوں کو فارغ کر کے شریعت بنچ ہی کا خاتمہ کر دیا. اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ.

(۱۸) آخر ایک ملک کی قوم دوسرے ملک کی قومیت کے ساتھ اگر مخلوط نہیں ہو سکتی تو اللہ تعالیٰ کو مقتدرِ اعلیٰ ماننے والے اپنی قومیت جداگانہ کیوں نہ رکھیں اور اللہ کے سوا دوسرے کے لیے اقتدارِ اعلیٰ تسلیم کرنے والوں کو اپنی قومیت میں کیوں شامل کریں؟

(۱۹) اس لیے ذمی گالی نہیں بلکہ ایک اعزاز ہے.

(۲۰) کیونکہ یہ تبلیغ ریاست کے مقتدر اعلیٰ کے خلاف بغاوت کی تبلیغ ہو گی‘ جس کی اجازت کوئی ریاست نہیں دے سکتی. یہی کیا کم ہے کہ مقتدرِ اعلیٰ کا اقتدار نہ ماننے والوں کو ریاست میں جملہ حقوق کے ساتھ رہنے کا حق حاصل ہو.