اسلام نے مارکسزم (کمیونزم) کے رہنما اصولوں (Cardinal Principles) کو اپنے ہاں روحانی اور اخلاقی سطح پر برقرار رکھا ہے‘ قانونی سطح پر نہیں.ان میں سے پہلا اصول‘ انسانی ملکیت کی نفی ہے. ہر شے اللہ کی ملکیت ہے‘ نہ کسی انسان کی انفرادی ملکیت ہے نہ ہی قومی ملکیت ہے. قرآن مجید میں یہ کلمات ایک سے زائد مرتبہ وارد ہوئے ہیں: لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ (البقرہ:۲۸۴’’اللہ ہی کی ملک ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے.‘‘

انسان کے پاس جو کچھ ہے ‘امانت ہے. انسان کو جو کچھ ملتا ہے وہ محض انسانی محنت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے‘ اور فضل اسے کہا جاتا ہے جو کسی استحقاق کے بغیر عطا ہو. جبکہ اجرت اور اجر استحقاق کی بنیاد پر ملتے ہیں. بندۂ مومن کو یہ کبھی نہ سمجھنا چاہیے کہ اسے جو کچھ ملا ہے یہ سب کچھ اس کی کمائی اور محنت سے میسر آ گیا ہے‘ نہ ہی اسے اپنی صلاحیت اور ذہانت کا نتیجہ سمجھنا چاہیے. سورۃ الجمعہ میں ارشاد ہے:

فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانۡتَشِرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ وَ ابۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِ اللّٰہِ… (آیت۱۰)
’’جب نماز (جمعہ) مکمل ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو…‘‘

چنانچہ اس فضل میں سے انسان کا جائز حق صرف اس کی ضروریات ہیں.جو کچھ بھی ضرورت سے زائد ہے وہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ نے آزمائش کے لیے ہمیں عطا کر دیا ہے. امتحان یہ ہے کہ اس زائد مال کو فقراء اور مساکین میں تقسیم کر کے ’’حق بحق دار رسید‘‘ (حق حقدار کو پہنچ گیا) پر عمل کرتے ہو یا اس پر غاصبانہ قبضہ کر کے بیٹھ جاتے ہو کہ میرا مال ہے. چنانچہ سورۃ البقرۃ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ مَا ذَا یُنۡفِقُوۡنَ ۬ؕ قُلِ الۡعَفۡوَؕ (آیت ۲۱۹)
’’(اے رسول  )یہ آپؐ سے پوچھتے ہیں کہ کیا انفاق کریں؟ کہہ دیجیے‘ ضرورت سے جتنا زائد ہے (العفو) اس کا انفاق کرو (بھلائی کے کاموں میں خرچ کرو).‘‘

غور کیجیے کیا اس سے بھی اونچا کوئی ’’سوشلزم‘‘ ممکن ہے؟ لیکن یہ ہے رضاکارانہ‘ اختیاری. اس کو قانون نہیں بنایا جا سکتا. چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ نبی  نے اس کے مطابق زندگی گزاری ہے .آپ نے پوری زندگی کچھ بچا کر رکھا ہی نہیں کہ زکوٰۃ کا سوال پیدا ہو. میں جب یہ کہا کرتا ہوں کہ حضور  نے پوری زندگی زکوٰۃ دی ہی نہیں تو اس پر لوگ چونک جاتے ہیں. زکوٰۃ دینے کا سوال تو تب پیدا ہوتا ہے جب آپ کچھ بچا کر رکھتے اور صاحب نصاب ہوتے. اس کو میں spiritual socialism سے تعبیر کیا کرتا ہوں.

جس روحانی سوشلزم کا ذکر ابھی ہوا ہے اس پر نبی اکرم  کے علاوہ بہت سے فقراء صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے بھی زندگی گزاری ہے. انہی فقراء صحابہ میں حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ شد ّتِ زہد کی وجہ سے کسی قدر انتہا پسندی کی طرف مائل ہو گئے تھے. چنانچہ ان کا نظریہ یہ تھا کہ سونے کا ایک ٹکڑا بھی اپنے پاس رکھنا حرامِ مطلق ہے. پھر یہ معاملہ صرف صحابہ ؓ تک بھی محدود نہیں‘ بلکہ ہمارے صوفیائے عِظام نے بھی اسی روحانی سطح پر زندگی بسر کی ہے. یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام انہی صاحب کردار لوگوں کی وجہ سے پھیلا‘ جب کہ ہمارے ہاں جو بادشاہ آئے وہ اسلام کی طرف دعوت دینے کے بجائے اسلام سے متنفر کرنے والے تھے.