اب میں اس سے بھی زیادہ sensitive issue کی طرف آ رہا ہوں‘ اور وہ ہے زمین کا مسئلہ. میں نے شروع ہی میں عرض کیا تھا کہ جن تین خرابیوں کو نکال کر کسی بھی نظام معیشت کو اسلامی بنایا جا سکتا ہے‘ ان میں سے ایک جاگیرداری اور غیر حاضر ملکیت زمین (absentee landlordism) کا نظام بھی ہے. اس بات کو آپ یوں سمجھئے کہ زمین آپ کی ہے‘ آپ محنت کریں‘ خوب محنت کریں اور زیادہ سے زیادہ فوائد پیداوار حاصل کریں ’’چشم ما روشن دلِ ما شاد‘‘. لیکن اصل مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب زمین کسی اور کی ہو اور محنت کوئی دوسرا کرے. ایک اور صورت یہ ہو سکتی ہے کہ زمین بھی جمع کریں اور محنت بھی‘ جیسے ’’شراکت‘‘ میں ہوتا ہے. اس طرح آپ collective farming کر سکتے ہیں‘ گویا آپ نے وسائل اور محنت جمع کر دی. لیکن یہ سارا معاملہ رضاکارانہ اور فریقین کی آزاد مرضی سے ہونا چاہیے. اس میں کسی قسم کے جبر کا دخل نہیں ہونا چاہیے.

زمین کی زراعت کی ایک تیسری صورت بھی ہے. وہ یہ ہے کہ زمین مثلاً میری ہے لیکن کاشت کوئی اور کرے. اس ضمن میں جو بات میں کہنا چاہتا ہوں‘ اس کو سمجھنے کے لیے پہلے ایک اصول کو ذہن نشین کرنا ضروری ہے‘ کیونکہ جب تک حکم کی منطق سمجھ میں نہیں آئے گی اس وقت تک بات پوری طرح گرفت میں نہیں آئے گی. اصل بات یہ ہے کہ زمین کے سلسلے میں مضاربت کا اصول نہیں چل سکتا‘ کیونکہ مضاربت میں سرمایہ لگانے والے کو منافع میں حصہ دینے کا جواز اس بنیاد پر پیدا ہوا تھا کہ نقصان سارا سرمایہ دار کو برداشت کرنا ہو گا‘ لیکن یہاں سرمایہ زمین ہے. زمین کا کیا بگڑے گا‘ وہ تو جوں کی توں موجود رہے گی جبکہ سرمایہ کل کا کل یا اس کا کوئی حصہ ڈوب سکتا ہے‘ مگر زمین کی صورت میں تو صرف کارکن کی محنت ڈوبتی ہے. لہذا مضاربت کا معاملہ زمین میں نہیں ہو سکتا. اگر سرمایہ دار (زمین کا مالک) نقصان میں بھی شریک ہو سکتا تو مضاربت کی طرح مزارعت بھی جائز ہوتی.