اب ہم جاگیرداری کی طرف آتے ہیں. ہمارے ہاں جاگیرداری کی جو مصیبت ہے اسے شمشیر ِفاروقی ہی سے ختم کیا جا سکتا ہے. وہ جو علامہ اقبال نے کہا ہے: ؎

خوشتر آں باشد مسلمانش کنی
کشتۂ شمشیر قرآنش کنی 

(بہتر یہ ہے کہ تم اسے مسلمان بنا لو‘ اور قرآن کی تلوار سے اسے مار دو!)
جاگیر داری کے خلاف حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ بہت بڑا اجتہاد تھا جو اجماع کی شکل اختیار کر گیا. ان معاشی مسائل کو اچھی طرح سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے. ہمارے ہاں کی مذہبی سیاسی جماعتوں نے اسلام کا نعرہ تو لگا دیا لیکن ان مسائل کو چھیڑا ہی نہیں. یہی وجہ ہے کہ عام لوگوں کے ذہن میں نفاذِ اسلام کا بس یہی تصور ہے کہ کوڑے لگیں گے اور ہاتھ کٹیں گے!! ظاہر ہے کہ وہ اسلام سے بھاگیں گے نہیں تو اور کیا کریں گے. اسلامی نظام کی برکات کو تو سامنے لایا ہی نہیں گیا. یہاں تک کہ ہمارے ہاں کی دو مذہبی سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے انتخابی منشور میں ’’تحدید ِملکیت زمین‘‘ کا مسئلہ اٹھایا ہے‘ یعنی ایک مخصوص شرح سے زیادہ کسی شخص کے پاس زمین نہیں رہنے دیں گے. فرض کیجیے کہ یہ شرح پچیس ایکڑ ہے. اب جس کی ملکیت مثلاً پانچ سو ایکڑ ہے‘ اس کی پونے پانچ سو ایکڑ کس دلیل کی بنیاد پر آپ واپس لیں گے؟ سپریم 
کورٹ کا شریعت بنچ مفصل فیصلہ دے چکاہے کہ آپ کسی کی ملکیت میں سے کوئی شے جبراً نہیں لے سکتے. اگر کسی قومی ضرورت یا تقاضے کے تحت کوئی شے لینا ناگزیر ہوجائے تو مالک کو معاوضہ ادا کرنا ہو گا. گویا آپ شرعی دلیل کے بغیر ایک انچ زمین بھی نہیں لے سکتے.

ہمارے پاس الحمد للہ دلیل موجود ہے. ہم نے اس موضوع پر بحث کا آغاز ایک عرصے سے کر دیا ہے اور یہ بحث وسیع حلقے میں پھیل رہی ہے. ظاہر ہے قیل و قال اور بحث و نزاع ہی سے ایک مسئلہ نکھر کر سامنے آئے گا. جیسا کہ میں نے ابھی عرض کیا تھا کہ جاگیرداری کو شمشیر ِفاروقی ؓ سے ختم کیا جا سکتا ہے. حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جاگیرداری کے خلاف جو اجتہاد کیا تھا اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب عراق‘ شام‘ ایران اور مصر فتح ہوئے تو اُس وقت مجاہدین کی تعداد چند ہزار ہی تھی مسلمانوں کی فوج کی تعداد لاکھوں تک نہ پہنچی تھی. مجاہدین نے کہا کہ یہ تمام زمینیں اور علاقے ہم نے فتح کیے ہیں‘ سب مال غنیمت ہیں.ا س میں سے بیت المال کا حصہ صرف ۵/۱ ہے‘ باقی چار حصے جنگ میں حصہ لینے والے مجاہدین کے ہوتے ہیں. لہذا یہ ساری زمین اور اس کے کاشتکار مجاہدین میں تقسیم کر دیے جائیں‘ کاشتکار ہمارے غلام اور زمینیں ہماری جاگیر ہوں گی. ابتدا میں یہ مطالبہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور ان کے کچھ ساتھیوں نے کیا. پھر یہ مطالبہ زور پکڑ گیا. عشرۂ مبشرہ میں سے حضرت زبیر بن العوام اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما بھی کھڑے ہو گئے. اس موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اجتہادی بصیرت نے عام مجاہدین کی اس رائے کو ناپسند کیا. حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مقام وہ ہے جس کے بارے میں آنحضرت  کا ارشاد ہے: اِنَّ اللہَ جَعَلَ الْحَقَّ عَلٰی لِسَانِ عُمَرَوَقَلْبِہٖ (رواہ الترمذی واحمد) ’’اللہ تعالیٰ نے حق عمر کی زبان اور قلب پر رکھ دیا ہے‘‘.آپ  نے مزید یہ بھی فرمایا ہے کہ: لَـوْ کَانَ بَعْدِیْ نَبِیٌّ لَـکَانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ (سنن الترمذی) ’’میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہی ہوتی ـ.‘‘
چنانچہ اس نازک مسئلے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بصیرت کا مشاہدہ سب ہی نے کر 
لیا.واقعہ یہ ہے کہ اگر اس وقت مجاہدین کا مطالبہ مان لیا جاتا تو عالم ِاسلام میں دنیا کا بدترین جاگیردارانہ نظام قائم ہو جاتا. مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس مطالبے کی سخت مخالفت کی. ان کا اجتہاد قرآن پر مبنی تھا‘ جس سے ان کے مطالعۂ قرآن کی وسعت اور گہرائی کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے.

قرآن حکیم میں ’’اموالِ فے‘‘ کا حکم سورۃ الحشر میں بیان ہوا ہے جو کل کا کل بیت المال میں داخل کیا جاتا ہے اور مجاہدین میں اسے تقسیم نہیں کیا جاتا. امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ مفتوحہ علاقے مالِ غنیمت نہیں بلکہ مالِ فے ہیں. مالِ غنیمت کا اطلاق صرف ان اموال پر ہو گا جو عین محاذِ جنگ میں ہاتھ آئیں. ان اموال میں جنگی آلات مثلاً تلواریں‘ نیزے اور ڈھالیں وغیرہ‘ یا دشمن اپنے کھانے کے لیے جو مال مویشی‘ بھیڑ‘ بکریاں ساتھ لاتا ہے‘ اسی طرح سواری اور باربرداری کے جانور اونٹ‘ گھوڑے اور خچر وغیرہ شامل ہیں. جب کہ زمین وغیرہ ’’فے‘‘ ہیں جو کل بیت المال کی ملک ہے. یہ کسی کی انفرادی ملک نہیں ہے. 

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس رائے کی تائید اکابر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے حضرت علی ‘ حضرت عثمان ‘ حضرت طلحہ اور حضرت عبداللہ بن عمر رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی کر رہے تھے. لیکن ان جلیل القدر صحابہ کی رائے کے باوجود اس معاملے پر بہت ردّ و قدح ہوا. یہ کوئی معمولی بات تو نہ تھی. حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی رائے کے حق میں چٹان کی طرح کھڑے ہو گئے. بالآخر اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک ’’لینڈ کمیشن‘‘ مقرر کیا. اس کمیشن میں کسی مہاجر کو شامل نہیں کیا گیا‘ کیونکہ زراعت پیشہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ زراعت کے مسائل سے ناواقف تھے. یہ حضرات مکہ سے ہجرت کر کے آئے تھے اور اس وادیٔ غیر ذی زرع میں تجارت اور کاروبار ہی ان کا ذریعہ ٔمعاش تھا. کمیشن میں پانچ انصاری قبیلۂ خزرج میں سے اور پانچ انصاری قبیلہ اوس میں سے شامل کیے گئے. اس لینڈ کمیشن نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے سے اتفاق کیا اور اسی پر اجماع ہوگیا. اس اجتہاد کی رو سے اسلامی قانون میں مستقل طور پر زمین کی دو قسمیں تاقیامِ قیامت وجود میں آچکی ہیں.