دورِ ملوکیت کے باقیاتِ سیئات

اس حوالے سے میں علامہ اقبال کا ذکر کر چکا ہوں. انہوں نے اس دور میں بہت گہری حقیقت تک رسائی حاصل کی تھی. دورِ ملوکیت کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں. علامہ اقبال نے انہیں خوب سمجھا تھا. چنانچہ انہوں نے اپنی نظم ’’ابلیس کی مجلس ِشوریٰ‘‘ میں خود ابلیس کی زبان سے کہلوایا تھا: ؎ 

جانتا ہوں میں یہ اُمت حامل قرآں نہیں
ہے وہی سرمایہ داری بندۂ مومن کا دیں
جانتا ہوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں
بے ید بیضا ہے پیرانِ حرم کی آستیں

دورِ ملوکیت میں یہ چیزیں رفتہ رفتہ ہمارے ہاں در آئی ہیں. اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہم نے انہیں کل دین سمجھ لیا ہے‘ جب کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ قرآن وسنت کے اصل اہداف کی طرف پلٹا جائے. ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ عہد حاضر میں عوام کی فلاح و بہبود اور عدل و قسط کے تقاضے کیا ہیں. آج کے دور میں اصل اہمیت اجتماعی نظام کی ہے. اس کے علاوہ خود شریعت کے نزول کا مقصد ہی نظامِ عدل و قسط کا قیام ہے. چنانچہ سورۃ الحدید میں ارشادِ ربانی ہے:

لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا بِالۡبَیِّنٰتِ وَ اَنۡزَلۡنَا مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡمِیۡزَانَ لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ ۚ (آیت ۲۵)

’’ہم نے اپنے رسولوں کو معجزات اور واضح تعلیمات کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان اتاری تاکہ لوگ عدل اور قسط پر قائم ہوں.‘‘

اس کے برعکس اگر haves and have-nots کے درمیان گہری خلیج موجود ہے‘ انسانیت مترفین اور محرومین‘ مستضعفین اور مستکبرین میں تقسیم ہے تو ظاہر ہے کہ نزولِ شریعت کا اصل مقصد تو حاصل نہیں ہورہا ہے.

موجودہ مغربی سرمایہ دارانہ نظام میں بھی ایک اچھی چیز موجود ہے‘ اگرچہ اسلام نے وہ چیز اس سے بہتر انداز میں عطا کی ہے. مغربی سرمایہ دارانہ نظام میں وہ چیز بے روزگاری الاؤنس (unemployment allowance) ہے. اس وقت تقریباً تمام یورپی ممالک میں اجتماعی بہبود (ویلفیئر) کا نظام کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے‘ جب کہ یہ نظام اعلیٰ ترین شکل میں اسکینڈے نیوین ممالک میں رائج ہے. چنانچہ ان ممالک میں جس اسکول کے اندر ایک billionaire کا بچہ پڑھتا ہے اسی اسکول میں اس شخص کا بچہ بھی پڑھتا ہے جس کی گزر اوقات محض ویلفیئر الاؤنس پر ہے. یہی معاملہ علاج معالجہ اور دیگر بنیادی سہولیات میں بھی کارفرما ہے. اس میں شک نہیں کہ ایک فلاحی ریاست کی جو بلند ترین سطح ممکن ہے وہ اسکینڈے نیوین ممالک میں موجود ہے. برطانیہ بھی اس کے آس پاس نہیں پہنچ سکا جب کہ امریکہ تو ابھی بہت دور ہے.

اسلام نے یہی شے اس سے بہتر انداز میں عطا کی ہے. مغربی سرمایہ دارانہ نظام میں اسے Internal Management of Capital کی اصطلاح سے پہچانتے ہیں. سرمایہ دارانہ نظام کے اندر کھلے مقابلے کا ماحول ہوتا ہے‘ جس کے نتیجے میں کچھ لوگ بہت آگے چلے جائیں گے اور کچھ پیچھے رہ جائیں گے. اس فرق کو کم کرنے کے لیے کوئی فیڈ بیک ہونا چاہیے‘ ورنہ ان دو طبقات میں خلیج زیادہ ہو جانے کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ بھوکے‘ پیٹ بھروں کا پیٹ چاک کریں گے. لہذا ان کو کچھ کھلا پلا کر چپ رکھنا پڑتا ہے. دراصل یہ سرمایہ دارانہ نظام کی ناگزیر ضرورت ہے. اسلام نے اسی مقصد کو زکوٰۃ کے ذریعے پورا کیا ہے. اسلام نے زکوٰۃ کو محض ٹیکس کے طور پر لاگو نہیں کیا بلکہ اس کو عبادت کا درجہ دیا ہے. سرمایہ دارانہ نظام میں ٹیکس سے بچنا تو آدمی اپنا حق سمجھتا ہے. چنانچہ اس مقصد کے لیے مختلف قانونی ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں. سرمایہ داروں کی مدد کے لیے بڑی بڑی لیگل فرمیں ہوتی ہیں جو بھاری فیسیں لے کر انہیں راستے بتاتی ہیں کہ اس طرح کرو گے تو ٹیکس سے بچ نکلو گے. اس کے برخلاف اسلام نے زکوٰۃ کو عبادت کا درجہ دیا ہے‘ لہذا کوئی مسلمان اس سے اعراض نہیں کرے گا.