اب ہم اس سوال پر غور کرتے ہیں کہ زکوٰۃ اصل میں ہے کیا؟ زکوٰۃ کے بارے میں حدیث رسول ؐ ہے:
تُــؤْخَذُ مِنْ اَغْنِیَاءِ ھِمْ وَتُرَدُّ عَلٰی فُقَرَاءِ ھِمْ (متفق علیہ)

’’(زکوٰۃ) ان کے اغنیاء سے لی جائے گی اور انہی کے فقراء میں تقسیم کر دی جائے گی.‘‘
یہاں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ غنی سے مراد ارب پتی نہیں ہے‘ نہ ہی فقیر سے مراد اس قدر بھوکا ہے کہ فاقے آ رہے ہوں‘ بلکہ ان دونوں کے درمیان ایک واضح خط کھینچ دیا گیا ہے. اگر آپ کے پاس سات تو لے سونے یا باون تولے چاندی کی مالیت ہے تو آپ معطی 
(doners) میں شامل ہیں. گویا آپ غنی ہیں. لیکن اگر اس مالیت کے مالک نہیں ہیں تو آپ عطیہ لینے کے حقدار(recipient) ہیں. اس طرح دینے والے اور لینے کے حقدار کے درمیان ایک فصیل کھینچ دی گئی ہے.

اس موقع پر یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ اس زکوٰۃ کے نظام پر بہت بڑا ظلم ہمارے مرحوم صدر ضیاء الحق نے کیا ہے. زکوٰۃ آرڈی نینس اور زکوٰۃ کے نظام کو انہوں نے خالص اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا . اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک منظم بھیک کا نظام وجود میں 
آ گیا. زکوٰۃ کا اصل نظام کفالت ِعامہ کے لیے ہے. اسلامی ریاست کو اپنے تمام شہریوں کی بنیادی ضروریات کی ذمہ داری قبول کرنا پڑے گی. ہمارے ہاں کسی زمانے میں روٹی‘ کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا گیا تھا. یہ نعرہ غیر اسلامی ہر گز نہیں تھا‘ یہ دوسری بات ہے کہ نعرہ لگانے والے جاگیردار تھے. ان جاگیرداروں نے اپنے وقتی سیاسی مقاصد کے لیے اس نعرے کو استعمال کیا. ان میں کسی کی نیت کچھ کر گزرنے کی نہ تھی‘ ورنہ ضرور کچھ نہ کچھ عملی اقدامات کیے جاتے. لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ زکوٰۃ کے نظام کے ساتھ جو کچھ ضیاء الحق مرحوم نے کیا وہ اس سے بھی بدتر ہے. اس شخص نے زکوٰۃ کے نظام کو بدنام کیا ہے. ضیاء الحق کا زکوٰۃ کا نظام یہ ہے کہ فکسڈ ڈیپازٹس کے اندر سود کا ایک حصہ لے کر اسے زکوٰۃ کا نام دے دیا گیا‘ جب کہ زکوٰۃ کا اصل نظام نافذ ہی نہیں کیا گیا.