نظام زکوٰۃ کا ایک اور امتیاز

اسکینڈے نیوین ممالک کا سوشلزم یا ویلفیئر کا نظام زیادہ عرصہ نہیں چل سکتا. میں نے کئی سال پہلے یہ بات کہی تھی کہ ویلفیئر کی اتنی بلند سطح برقرار رکھنا مشکل ہے. اس کی وجہ سے معاشرے میں وہ طبقہ پیدا ہو جائے گا اور رفتہ رفتہ بڑھتا چلا جائے گا جو کام کیے بغیر اس ویلفیئر نظام ہی سے استفادے کو کافی سمجھ لے گا‘ اور حکومت کے اس نظام سے استفادے کو اپنا حق سمجھنے کی وجہ سے کسی بھی الاؤنس کی وصولی میں اسے اپنی خودداری بھی مجروح ہوتی ہوئی محسوس نہ ہو گی. یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں اب ایسے لوگ بکثرت ہو گئے ہیں جن کو حکومت روزگار دلاتی ہے‘ لیکن وہ جلد از جلد بے روزگار ہو کر بے روزگاری الاؤنس وصول کرنے لگتے ہیں.

اس کے برخلاف اسلام نے اگرچہ اغنیاء پر زکوٰۃ کو فرض قرار دیا ہے‘ لیکن زکوٰۃ لینے والوں سے کہا ہے کہ یہ تمہاری غیرت کی نفی ہے کہ تم لینے والے بنو اور زکوٰۃ قبول کرو. اسلام چاہتا ہے کہ انسان اپنے پاؤں پر کھڑا ہو اور کسی کا محتاج نہ رہے. نبی  نے ہاتھ سے کمانے کی ترغیب دلائی ہے. آپ کا ارشاد ہے کہ اَلْکَاسِبُ حَبِیْبُ اللّٰہِ ’’روزی کمانے والا اللہ کا دوست ہے‘‘. آپنے یہ بھی فرمایا ہے کہ سب سے زیادہ پاکیزہ کمائی ہاتھ کی کمائی ہے. حضرت داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتے تھے‘ زرہیں بناتے تھے‘ خزانے کو اپنی ذاتی ملکیت نہ سمجھتے تھے. آپ  کا یہ ارشاد بھی ہے کہ’’اوپر والا ہاتھ (دینے والا) نیچے والے ہاتھ (لینے والے) سے بہتر ہے.‘‘ آپ ؐ نے زکوٰۃ کو میل کچیل قرار دیا ہے اور خود اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو زکوٰۃ کی وصولی سے مستثنیٰ کر لیا ہے.(۵