معاشرتی نظام کے اصول و مبادی

پہلی بات یہ ہے کہ اسلام میں پیدائشی طور پر تمام انسان برابر ہیں. گویا کامل انسانی مساوات موجود ہے. پیدائشی طو رپر نہ کوئی اونچا ہے نہ نیچا‘ نہ نسل کی بنیاد پر‘ نہ رنگ کی بنیاد پر اور نہ جنس کی بنیاد پر. اسلام ہر گز اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ عورت کو مرد سے گھٹیا تصور کیا جائے. قرآن حکیم اونچ نیچ کے ہر تصور کی نفی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ بَعۡضُکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡضٍ (آل عمران:۱۹۵یعنی تم سب ایک دوسرے ہی سے ہو. ایک ہی باپ کے نطفے میں سے اس کا بیٹا بھی ہے اور بیٹی بھی‘ اور ایک ہی ماں کے رحم میں دونوں نے پرورش پائی ہے.

یہ بات کہنے میں جتنی سادہ ہے‘ دل وجان کے ساتھ اسے تسلیم کرنا اتنا ہی مشکل ہے. ہمارے ہاں ہندوؤں کو تو خوب برا بھلا کہا جاتا ہے کہ ان کے ہاں برہمن اور شودر کی معاشرتی تفریق موجود ہے‘ لیکن بالکل اسی طرح ہمارے ہاں مصلی اور سید (سندھ میں اُمتی اور سید ) کی تفریق موجود ہے. مگر واقعہ یہ ہے کہ خود اسلام اس تقسیم کو کسی درجے میں بھی قبول نہیں کرتا. اسلام کا پہلا اصل الاصول سماجی سطح پر کامل انسانی مساوات ہے. اسلام کے تصور میں اگر مراتب کا کوئی فرق ہے تو وہ علم اور تقویٰ کے حوالے سے ہے. چنانچہ قرآن حکیم میں ارشاد ہے:

اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ ؕ (الحجرات :۱۳
’’اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تقویٰ (خدا ترسی) میں سب سے زیادہ ہو.‘‘

علم اور تقویٰ وہ چیزیں ہیں جن کو آپ اپنی محنت سے کسب کرتے ہیں. ان کے برعکس وہ چیزیں جو آپ کو اپنے کسب کے بغیر عطا کی گئی ہیں‘ آپ کی پسند و ناپسند اور کسب ومحنت کو ان کے حصول میں کوئی دخل نہیں ہے‘ ان کو وجہ اعزاز و اکرام نہیں بنایا گیا. اللہ نے آپ کو جو رنگ اور شکل و صورت عطا کی ہے‘ اسی طرح آپ کو جس نسل میں پیدا کر دیا گیا ہے اور آپ کی جو جنس بنا دی گئی ہے‘ ان چیزوں میں آپ کو کوئی اختیار قطعاً نہیں دیا گیا‘ لہذا جن چیزوں میں آپ کا اختیار نہیں ہے ان کی وجہ سے کوئی اونچ نیچ کا معیار قائم نہیں کیا جا سکتا. قرآن حکیم میں ارشاد ہے:

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ وَّ اُنۡثٰی وَ جَعَلۡنٰکُمۡ شُعُوۡبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡا ؕ اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ ؕ (الحجرات : ۱۳)
’’اے لوگو! بے شک ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تم کو قوموں اور قبیلوں کی صورت میں بنا دیا کہ ایک دوسرے کو پہچان سکو. بے شک اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم سب سے زیادہ صاحب تقویٰ ہو.‘‘

البتہ دستوری اور قانونی سطح پر مسلم اور غیر مسلم کے درمیان فرق ہو گا. یہ فرق بھی محض انتظامی ضرورت کے تحت ہے. اس لیے کہ ہم کو ایک نظام چلانا ہے‘ اور نظام وہی چلا سکتا ہے جو اس کی صداقت پر ایمان رکھتا ہو. لہذا نظام خلافت چلانے کی ذمہ داری صرف مسلمانوں کی ہے. غیر مسلم اس نظام کو نہ چلا سکتے ہیں اور نہ چلانے کا حق رکھتے ہیں. لیکن اس فرق کے حوالے سے یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ یہاں بھی معاملہ افضلیت یا مفضولیت کا نہیں ہے. کسی کو کبھی یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ میں مسلمان ہوں اس لیے کافر سے افضل ہوں (ایمان کی فضیلت اپنی جگہ مگر آدم کی اولاد ہونے میں یا انسان ہونے کے ناطے کافر اور مسلم دونوں ایک ہی سطح پر ہیں). علاوہ ازیں‘ مسلمان کو کافر سے جوہری طور پر افضل نہ قرار دینے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ا صل اعتبار خاتمے کا ہے‘ اور کس کا خاتمہ کس حالت پر ہو گا اس کا کسی کو علم نہیں. میں الحمد للہ آج مسلمان ہوں ‘مگر اس بات کا امکان تو موجود ہے کہ کل کو میرا پاؤں پھسل جائے اور میں گمراہی کے غار میں جاگروں‘ اور اس بات کا بھی امکان موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کافر کے لیے ہدایت کا دروازہ کھول دیں. کفر و اسلام کی یہ تقسیم مستقل نہیں ہے‘ جبکہ کالے اور گورے کی تقسیم تو مستقل ہے. یہ ممکن نہیں کہ کوئی کالا گورا ہو جائے‘ لیکن کوئی کافر کلمہ پڑھ کر اس فرق کو ایک لمحے میں ختم کر سکتا ہے.

ایک اور تقسیم انتظامی اعتبار سے ہے. یہ تقسیم افسر اور ماتحت کی ہے. اس تقسیم اور فرق کو ہمیں تسلیم کرنا ہو گا. اسی طرح شرفِ انسانیت کے اعتبار سے مرد اور عورت برابر ہیں. روحانی اور اخلاقی بلندی کے لیے میدان دونوں کے لیے کھلا ہے. چنانچہ سورۃ الاحزاب میں ارشادِ ربانی ہے:

اِنَّ الۡمُسۡلِمِیۡنَ وَ الۡمُسۡلِمٰتِ وَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ وَ الۡقٰنِتِیۡنَ وَ الۡقٰنِتٰتِ وَ الصّٰدِقِیۡنَ وَ الصّٰدِقٰتِ وَ الصّٰبِرِیۡنَ وَ الصّٰبِرٰتِ وَ الۡخٰشِعِیۡنَ وَ الۡخٰشِعٰتِ وَ الۡمُتَصَدِّقِیۡنَ وَ الۡمُتَصَدِّقٰتِ وَ الصَّآئِمِیۡنَ وَ الصّٰٓئِمٰتِ وَ الۡحٰفِظِیۡنَ فُرُوۡجَہُمۡ وَ الۡحٰفِظٰتِ وَ الذّٰکِرِیۡنَ اللّٰہَ کَثِیۡرًا وَّ الذّٰکِرٰتِ ۙ اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُمۡ مَّغۡفِرَۃً وَّ اَجۡرًا عَظِیۡمًا ﴿۳۵
’’بے شک مسلم مرد اور مسلم عورتیں‘ مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں‘ فرماں بردار مرد اور فرماں بردار عورتیں‘ سچے مرد اور سچی عورتیں‘ صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں‘ (ادب سے) جھکنے والے مرد اور جھکنے والی عورتیں‘ صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں ‘ روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں‘ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنی والی عورتیں‘ اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور یاد کرنے والی عورتیں ‘ اللہ نے ان سب کے لیے مغفرت اور اجر ِعظیم کا اہتمام کر رکھا ہے.‘‘

اس آیت ِمبارکہ میں جتنے بھی اوصاف ِعالیہ گِنوائے گئے ہیں ان میں مرد اور عورت دونوں کو شریک کیا گیا ہے. چنانچہ نجانے کتنے کروڑوں مرد حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے مقام پر رشک کرتے ہوں گے.

شرفِ انسانیت کے اعتبار سے اگرچہ مرد اور عورت برابر ہیں‘ لیکن جب ایک مرد اور ایک عورت رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو گئے تو اب (انتظامی طور پر) برابر نہیں رہے. اس لیے کہ اب ایک ادارہ وجود میں آ گیا ہے. یہ خاندان کا ادارہ (institution of family) ہے اور ہر ادارے کے لیے ایک سربراہ ہونا لازم ہے. کسی ادارے میں برابر کے درجے  والے دو سربراہ ہوں تو اس کا بیڑہ غرق ہو جائے گا. اس لحاظ سے قرآن حکیم کی ہدایت یہ ہے کہ:

اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوۡنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعۡضَہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ وَّ بِمَاۤ اَنۡفَقُوۡا مِنۡ اَمۡوَالِہِمۡ ؕ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلۡغَیۡبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ ؕ 
(النساء: ۳۴)
’’مرد حاکم ہیں عورتوں پر اس فضیلت کی بنا پر جو اللہ نے ایک کو دوسرے پر دی ہے اور اس وجہ سے کہ انہوں نے اپنے اموال (خاندان کے ادارے کو قائم کرنے پر) صَرف کیے ہیں.پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں ان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں.‘‘ یہ دراصل خاندانی ادارے کا نظم ہے اور اسی پر ہمارا سارا فقہی نظام قائم ہے. خاندان کے ادارے کا سربراہ مرد ہے. وہ شادی کے لیے مہر ادا کرنے کا پابند ہے‘ حالانکہ جس طرح شادی مرد کی ضرورت ہے اسی طرح عورت کی بھی ہے. مرد عورت کے بغیر نامکمل ہے اور عورت مرد کے بغیر‘ اس کے باوجود مہر ادا کرنے کی پابندی مرد کے لیے ہے‘ عورت کے لیے نہیں. مرد کے ذمہ کفالت بھی ہے‘ وہ بیوی کے نان نفقے کا ذمہ دار ہے. بچوں کی پرورش و پرداخت اور تعلیم و تربیت کی ذمہ داری بھی مرد ہی پر ہے. اسی مصلحت سے وراثت میں مرد کا حصہ عورت سے دوگنا رکھا گیا ہے. یہ تمام باتیں باہم منطقی طور پر مربوط ہیں. حقیقت یہ ہے کہ اسلامی فلسفہ ٔحیات نے کسی گوشے میں کوئی جھول نہیں چھوڑا ہے.

اسلام کے عائلی نظام کے حوالے سے علامہ اقبال نے ایک بہت اچھی بات کہی ہے. اپنے چھٹے لیکچر میں وہ کہتے ہیں کہ لوگ اسلام کے عائلی قوانین پر بڑے سطحی انداز میں غور کرتے ہیں اور اس وجہ سے وہ بہت سے اعتراضات شروع کر دیتے ہیں‘ گہرائی میں اتر کر غور نہیں کرتے. اسلام نے جو بات کہی ہے وہ اجمال سے کہی ہے‘ لیکن اسی اجمال کو ذرا کھول کر دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ اسلام کا ہر حکم یا ہدایت انتہائی معقول ہے. اسلام کے عائلی قوانین میں طلاق کا اختیار مرد کو دیا گیا ہے‘ عورت کو نہیں دیا گیا. تاہم عورت خلع حاصل کر سکتی ہے طلاق نہیں دے سکتی‘ اِلّایہ کہ شادی کے موقع پر عورت نے بطور شرط حق طلاق منوا لیا ہو. یہ تمام احکام خاندان کے نظام کو مستحکم رکھنے کے لیے مرد کی قوامیت کی ضرورت کا اظہار ہیں.

اسلام کے خاندانی نظام میں والدین کے حقوق اس نظام کا دوسرا رُخ یا بعد ِثانی (second dimension) ہے. ایک مرد اور عورت سے خاندان کی ابتدا ہوتی ہے. پھر اولاد ہو جانے سے second dimension شروع ہو جاتی ہے. اب والدین اور اولاد کا رشتہ بھی قائم ہو گیا. پھر اولاد جب ایک سے زائد ہو جاتی ہے تو اخوت کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے. یہ گویا ایک خاندان کے اَبعادِ ثلاثۃ (three dimensions) ہیں. اس ادارے کا استحکام مرد اور عورت کے درمیان قوی رشتے پر منحصر ہے. اسی طرح جتنا اولاد اور والدین کے درمیان رشتہ مضبوط ہو گا اتنا ہی خاندان کا ادارہ مستحکم ہو گا. یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم میں چار مقامات پر اللہ کے حق کے ساتھ والدین کے حقوق کا ذکر ہے. آپ حیران ہوں گے کہ ان مقامات پر رسولؐ کا ذکر بھی نہیں ہے. چنانچہ سورۂ لقمان میں آتا ہے کہ اَنِ اشۡکُرۡ لِیۡ وَ لِوَالِدَیۡکَ ؕ (لقمان:۱۴’’شکر کرو میرا اور اپنے والدین کا.‘‘ یہی مضمون سورۂ بنی اسرائیل میں آیا ہے کہ وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ وَ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا ؕ (بنی اسرائیل: ۲۳’’تیرے ربّ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ حسن ِسلوک کرو.‘‘ یہ سب اس لیے ہے کہ اولاد اور والدین کا رشتہ مضبوط ہو اور والدین پورے اطمینان کے ساتھ اپنے آپ کو اپنی اولاد میں پوری طرح کھپا دیں. وہ اپنے بڑھاپے کے لیے اس فکر کے ساتھ کچھ بچا کر نہ رکھیں کہ اس وقت کہاں سے کھائیں گے. انہیں اطمینان ہو کہ ان کی اولاد انہیں ان کا بدلہ دے گی. سورۂ بنی اسرائیل ہی میں یہ بھی ارشاد ہوا ہے:

اِمَّا یَبۡلُغَنَّ عِنۡدَکَ الۡکِبَرَ اَحَدُہُمَاۤ اَوۡ کِلٰہُمَا فَلَا تَقُلۡ لَّہُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنۡہَرۡہُمَا وَ قُلۡ لَّہُمَا قَوۡلًا کَرِیۡمًا ﴿۲۳﴾وَ اخۡفِضۡ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحۡمَۃِ وَ قُلۡ رَّبِّ ارۡحَمۡہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا ﴿ؕ۲۴
’’اگر پہنچ جائیں تمہارے پاس بڑھاپے کی عمر کو ان میں سے کوئی ایک یا دونوں تو انہیں اُف تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو‘ اور ان سے نرمی اور ادب کے ساتھ بات کرو. اور ان کے سامنے اپنے شانے نیازمندی اور ادب کے ساتھ جھکا کر رکھو 

اور یہ دعا کیا کرو کہ اے میرے ربّ ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے مجھے پالا پوسا جبکہ میں چھوٹا سا تھا.‘‘
اس آیۂ مبارکہ کو پڑھیے اور یورپ میں جا کر دیکھ لیجیے کہ بوڑھے والدین کا کیا حشر ہو تا ہے. آپ ان کی حسرت اور محرومی کا اندازہ نہیں لگا سکتے. وہ بیچارے سالہا سال اپنی اولاد کو دیکھنے کے انتظار میں گزار دیتے ہیں. وہ کرسمس کا انتظار محض اس خوشی میں 
کررہے ہوتے ہیں کہ اس موقع پر بیٹے یا بیٹی کی شکل نظر آئے گی. لیکن قابل افسوس بات یہ ہے کہ اس موقع پر بھی ان کو اپنے پیاروں کی شکل دیکھنے کو نہیں ملتی. ان کے ہاں old homes میں تمام سہولتیں موجود ہیں. وہاں ٹی وی سیٹ لگے ہوئے ہیں‘ بہترین کھانا میسر ہے‘ لیکن اہل یورپ یہ بات بھول گئے کہ انسانی جذبات کسی اور چیز کا بھی تقاضا کرتے ہیں.

خاندان کے ادارے کے استحکام کے لیے ایک تیسرا عنصر ستر و حجاب کے احکام ہیں. اس اہم عنصر کی طرف بہت کم لوگوں کی توجہ ہے. یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ زنا کے سد ِباب کے لیے عورتوں اور مردوں کا آزادانہ اختلاط نہیں ہونا چاہیے. اس کا اہم ترین تعلق جو خاندان کی مضبوطی کے ساتھ ہے‘ اس کی طرف توجہ نہیں کی گئی. (۶جس معاشرے میں بے پردگی اور عریانی ہے‘ آزادانہ اختلاط ہے اس معاشرے میں اگر کوئی مرد کسی عورت کو دیکھتا ہے اور وہ اس کی نگاہوں میں ’’کھب‘‘ جاتی ہے‘ تو اب اس کے خیالوں میں تو وہی بسی ہوئی ہو گی. ظاہر ہے کہ اس کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ بیوی پر سے تو جہ ہٹ جائے گی. اس سے شوہر اور بیوی کے درمیان جو رشتہ ٔالفت و محبت موجود رہنا چاہیے وہ کمزور ہو گا اور اس کے کمزور ہونے سے خاندان کا ادارہ عدمِ استحکام کا شکار ہو کر رہے گا. اس لیے اسلام نے عورت کے لیے پردے کو لازم کیا ہے‘ تاکہ شوہر کی پوری توجہ بیوی پر اور بیوی کی شوہر پر مرتکز رہے. 

یہ ایک حقیقت ہے کہ جنسی خواہش انسان کے اندر بہت ہی طاقتور محرک کی حیثیت رکھتی ہے. ہمارے ہاں جدید تعلیم یافتہ طبقہ جو کہ مغربی تہذیب کا دلدادہ ہے‘ ان کی یہ بہت بڑی علمی خیانت ہے کہ وہ ایک طرف تو فرائڈ کو جدید نفسیات کا ’’امام‘‘ مانتے ہیں‘ جس کا کہنا یہ ہے کہ انسان کے اندر سب سے طاقتور جذبۂ محرکہ شہوت ہے‘ مگر یہ مغرب زدہ لوگ صریحاً علمی خیانت کرتے ہوئے اس جذبے کو محض مولویوں کا خاصہ ظاہر کر کے ان کو بدنام کرتے ہیں اور چیخ چیخ کر کہتے ہیں کہ مولویوں کو جنسیات کے سوا اور کوئی بات آتی ہی نہیں. قرآن حکیم میں فطرتِ انسانی کے پیش نظر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ازواجِ مطہراتlتک کے بارے میں احکام دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ نبی  کی بیویوں سے کوئی چیز مانگنی ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگو. حالانکہ نبی  کی بیویاں اُمہات المؤمنین ہیں‘ لیکن اس کے باوجود پردے کے پیچھے سے مانگنے کا حکم اس لیے دیا جا رہا ہے کہ:

ذٰلِکُمۡ اَطۡہَرُ لِقُلُوۡبِکُمۡ وَ قُلُوۡبِہِنَّ ؕ (الاحزاب: ۵۳
’’یہ (عمل) پاکیزہ تر ہے تمہارے دلوں کے لیے بھی اور ان کے دلوں کے لیے بھی.‘‘

اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ اگر شوہر اور بیوی کی توجہ منتشر نہیں ہے تو اس سے باہمی اعتماد میں اضافہ ہو گا اور یہ باہمی مودّت و اُلفت خاندان کے ادارے کی پختگی پر منتج ہو گی. میاں بیوی کے اعتماد کے اس ماحول میں جو اولاد پروان چڑھتی ہے وہ نہایت صحت مند نفسیات کے ساتھ پروان چڑھتی ہے. اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہو‘ شوہر کا بیوی سے اعتماد اٹھ جائے اور بیوی کا شوہر پر سے تو آپ اندازہ لگائیں کہ اس ماحول میں جو اولاد پروان چڑھے گی اس کے اندر منفی رجحانات کے سواکیا ہو گا! اس بے اعتمادی کے ماحول میں بچوں کے اندر مثبت اوصاف کہاں سے پیدا ہوں گے؟

اسلام نے عورت کے لیے یقینا ستر و حجاب کے احکام دیے ہیں‘ مگر ان احکام کی پابندی کے باوجود عورت کو بہت زیادہ آزادی حاصل ہے. عورت کاروبار کر سکتی ہے اور اپنی جائیداد رکھ سکتی ہے‘ بس شرط یہ ہے کہ معاشرت مخلوط نہ ہو. ہاں اخلاقی تعلیم یہ ہے کہ وَ قَرۡنَ فِیۡ بُیُوۡتِکُنَّ (الاحزاب: ۳۳یعنی تمہاری اصل توجہ تمہارے گھروں پر ہونی چاہیے.یہ گھر تمہارا اصل دائرہ کار ہے. تاہم یہ کوئی قانونی پابندی نہیں ہے. ہمارے معاشرے میں زنانہ اور مردانہ کالج علیحدہ علیحدہ موجود ہیں‘ لیکن جب ہم خواتین یونیورسٹی کے علیحدہ قیام کی بات کرتے ہیں تو مغرب زدہ طبقہ کے حلق میں یہ مطالبہ نہ جانے کیوں ہڈی بن کر پھنس جاتا ہے. اسی طرح سے زنانہ اور مردانہ ہسپتال بھی علیحدہ علیحدہ بنائے جا سکتے ہیں. جو ہسپتال زنانہ ہوں وہاں مریض خواتین ہی کو داخلہ ملے اور ڈاکٹر بھی خواتین ہی ہوں. زنانہ ہسپتالوں میں نرسیں بھی عورتوں میں سے ہونی چاہئیں‘ جبکہ مردانہ ہسپتالوں میں مرد نرسوں کا اہتمام ہونا چاہیے.ا ن ہسپتالوں میں زنانہ نرسیں بہت سے فساد کی جڑ ہیں. سوچنے کی بات ہے کیا مرد نرسنگ نہیں کر سکتے‘ جبکہ فوج میں فارورڈ میڈیکل یونٹس جو محاذ جنگ پر جاتے ہیں وہاں کوئی خاتون نرس نہیں ہوتی‘ حالانکہ وہاں نرسوں کی ضرورت بھی بہت شدید ہوتی ہے. وہاں تو آپ خواتین نرسوں کو نہیں لے جاتے جبکہ عام مردانہ ہسپتالوں میں خواتین کو بطور نرس رکھا جاتا ہے. آپ سوچیے کیا پی آئی اے میں کھانے اور ناشتے کی ٹرے مرد نہیں پیش کر سکتا؟ (۷

خاندانی ادارے کے اندر مزید استحکام پیدا کرنے کے لیے ان قریبی رشتہ داروں کو ’’محرم‘‘ قرار دیا گیا ہے جو بالعموم ساتھ ساتھ رہنے پر مجبور ہیں اور جن سے خاندان کا ادارہ تشکیل پاتا ہے. ان محرم مردوں کے ساتھ نکاح کو حرام قرار دے دیا گیا ہے‘ تاکہ ان رشتوں سے تعلق رکھنے والے ایک دوسرے کو ہمیشہ پاکیزہ نگاہ سے دیکھیں. بھائی اور بہن‘ ماں اور بیٹا‘ ساس اور داماد‘ سسراور بہووغیرہ. اگر ایک دوسرے پر سے اعتماد اٹھ جائے تو خاندان کے اندر استحکام کیسے پیدا ہو سکتا ہے؟

یہ ہیں شریعت کے احکام! اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ایک دفعہ یہ طے کر لیں کہ ہمیں چلنا شریعت ہی پر ہے. یہ طے کر لینے کے بعد میں دعوے سے کہتا ہوں کہ راستہ کوئی نہیں روک سکتا. یہ سب کام ہوں گے لیکن علیحدہ علیحدہ دائرہ کار کے تحت ہوں گے. آگ اور پانی کا یہ جوڑ جو فساد کی جڑ ہے‘ اسے بہرحال ختم کرنا ہو گا. اس ضمن میں ایک بات کہی جا سکتی ہے‘ بلکہ اکثر کہی جاتی ہے کہ آج کی دنیا معاشی دنیا ہے. اس معاشی دوڑ میں اگر آپ اپنی آبادی کے پچاس فیصد کو علیحدہ رکھیں گے تو دنیا کا مقابلہ کیسے کریں گے؟ اس کا جواب میں دے چکا ہوں کہ ایک دفعہ عزم کر لیا جائے تو راستے کھلتے چلے جائیں گے. آپ گھریلو صنعتوں کا اہتمام کیجیے‘ عورتوں کو گھر پر کام دیجیے‘ تاکہ انہیں نکلنے کی ضرورت ہی نہ ہو. اسی طرح پرائمری ایجوکیشن مکمل طور پر خواتین کے حوالے کر دی جائے‘ مگر یہ معاملہ تیسری چوتھی جماعت تک ہی ہونا چاہیے‘ اس سے آگے نہیں. یہ بچوں کی عمر کا وہ دور ہوتا ہے جس میں ان کو شفقت و محبت کی ضرورت ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے عورت کے اندر مامتا کا جذبہ رکھا ہے. اس کے علاوہ ایسے صنعتی یونٹ بنائے جا سکتے ہیں جہاں عورتیں ہی نگرانی کریں اور عورتیں ہی کام کریں. اس ضمن میں یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ عورتوں کے اوقات ِکار َمردوں کے مقابلے میں کم ہوں‘ تاکہ وہ ایک بیوی اور ماں کی حیثیت سے بھی اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے وقت نکال سکیں.
میں اپنی بات کو اس نکتے پر ختم کرتا ہوں کہ اسلام کا معاشرتی اور سماجی نظام عہدحاضر ِکے تقاضوں کا ساتھ دینے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے. ہمیں اس حوالے سے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں. ہم اپنے دین پر عمل کرتے ہوئے دنیا کا نہ صرف مقابلہ کریں گے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر دکھائیں گے‘ لیکن آگے بڑھنے کے شوق میں محمد رسول اللہ کے لائے ہوئے دین کا دامن ہاتھ سے ہرگز نہ چھوڑیں گے!