(۱) خواہش:

یہ عظیم کام محض خواہش (۳سے سر انجام نہیں دیا جا سکتا.سورۃ النساء میں آتا ہے: لَیۡسَ بِاَمَانِیِّکُمۡ وَ لَاۤ اَمَانِیِّ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ ؕ (آیت ۱۲۳’’اے مسلمانو! نہ تمہاری خواہش سے کچھ ہو گا نہ اہل کتاب کی خواہش سے.‘‘ سیدھی سی بات ہے. محض خواہش سے گندم کا ایک دانہ بھی پیدا نہیں کیا جا سکتا. اس کے لیے ہل چلا کر زمین تیار کرنی ہو گی اور مناسب وقت پر بیج ڈالنا ہو گا. اس کے بعد آپ کو اس کی آبیاری کرنا ہو گی‘ورنہ آپ کو فصل نہیں ملے گی. یہ دنیا ’’عالم اَسباب‘‘ کہلاتی ہے. ان اسباب و علل سے ہٹ کر کسی کام کا ہو جانا معجزہ ہے‘اور معجزوں کا سلسلہ ختم ِنبوت ہی کے ساتھ ختم ہو گیا ہے. (۴معجزوں کا ظہور نبو ّت کے ساتھ مخصوص ہے اور وہ بھی اتمامِ حجت کے لیے. نبی اکرم کے اصل کارِ نبوت کی بنیاد معجزات پر نہیں بلکہ آپؐ نے اس کام میں مصائب و مشکلات کے پہاڑوں کا سامنا کیا ہے.
البتہ یہ ضرور ہے کہ جب آپ  نے اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنا سب کچھ لا کر قدموں میں ڈھیرکر دیا تو نصرتِ خداوندی آ گئی. یہ نصرت آج بھی آ سکتی ہے ؎

فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی!

(۲) دُعا:

یہ کام محض دُعا سے بھی نہیں ہو گا. یہ حقیقت اپنی جگہ کہ دُعا بہت بڑی شے اور بہت بڑی طاقت ہے. نبی کریم  نے فرمایا ہے : اَلدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَۃُ (ترمذی) ’’دُعا عبادت کا مغز ہے‘‘. آپکا ایک اور ارشادِ گرامی ہے: اَلدُّعَاءُ ھُوَ الْعِبَادَۃُ (ترمذی) ’’دُعا ہی عبادت ہے‘‘. آپ نے دعا کی طاقت و قوت بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: لاَ یَرُدُّ الْقَضَاءَ اِلاَّ الدُّعَاءُ (ترمذی) یعنی ’’تقدیر معلق (قضائے غیر مبرم) بھی دُعا سے بدل جاتی ہے‘‘. دُعا کی یہ اہمیت مسلم ہے‘لیکن دُعا کے ضمن میں بھی اللہ تعالیٰ کے کچھ قوانین ہیں. سب سے پہلے تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ دُعا کرنے والا دُعا کا منہ بھی رکھتا ہے کہ نہیں. قرآن حکیم میں آتا ہے کہ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ لَسۡتُمۡ عَلٰی شَیۡءٍ حَتّٰی تُقِیۡمُوا التَّوۡرٰىۃَ وَ الۡاِنۡجِیۡلَ ’’اے کتاب والو! تمہاری کوئی حیثیت نہیں ہے (تمہارا منہ نہیں ہے ہم سے بات کرنے کا) جب تک تم تورات اور انجیل کو قائم نہیں کرتے.‘‘ اسی پر آپ اپنے بارے میں قیاس کر لیجیے کہ ’’یَا اَھْلَ الْقُرْآنِ… یعنی اے اہل قرآن! تمہاری کوئی حیثیت نہیں جب تک تم قرآن کو قائم نہ کرو.

دوسری بات یہ ہے کہ دُعا تب قبول ہوتی ہے کہ جب انسان کے بس میں جو کچھ ہو‘ وہ کرچکا ہو. جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ میدان میں لا کر ڈال دو‘ اس کے بعد اللہ سے دعا مانگو.بقول اقبال: ؎ 

آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا 

نصرتِ خداوندی کا سلسلہ بند ہر گز نہیں ہوا ہے‘لیکن اس نصرت کے حصول کا ایک قاعدہ ہے جو قرآن حکیم میں بایں الفاظ بیان ہوا ہے:

اَمۡ حَسِبۡتُمۡ اَنۡ تَدۡخُلُوا الۡجَنَّۃَ وَ لَمَّا یَاۡتِکُمۡ مَّثَلُ الَّذِیۡنَ خَلَوۡا مِنۡ قَبۡلِکُمۡ ؕ مَسَّتۡہُمُ الۡبَاۡسَآءُ وَ الضَّرَّآءُ وَ زُلۡزِلُوۡا حَتّٰی یَقُوۡلَ الرَّسُوۡلُ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ مَتٰی نَصۡرُ اللّٰہِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ نَصۡرَ اللّٰہِ قَرِیۡبٌ ﴿۲۱۴﴾ (البقرۃ)

’’کیا تم نے سمجھا ہے کہ یونہی جنت میں داخل ہو جاؤ گے‘حالانکہ ابھی تو تم پر وہ حالات آئے ہی نہیں ہیں جو تم سے پہلے والے لوگوں پر آ چکے ہیں. ان پر تکالیف آئیں‘انہیں فقر و فاقے سے دو چار ہونا پڑا اور انہیں ہلا مارا گیا‘یہاں تک کہ رسول اور اس کے ساتھ ایمان لانے والے پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ (تب انہیں یہ خوشخبری سنائی گئی) سنو! اللہ کی مدد (بس) قریب ہے.‘‘

مسلمانوں کو جو یہ خبریں دی گئی ہیں کہ نَصۡرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ فَتۡحٌ قَرِیۡبٌ ؕ (الصف: ۱۳اور یہ کہ ’’اللہ نے ایمان لانے اور عمل صالح کرنے والوں سے استخلاف کا وعدہ کیا ہے‘‘ تو یہ خبریں سن ۵ھ کے آخر یا سن ۶ ھ کے اوائل میں دی گئی تھیں. مکی دور کے تیرہ برس اور غزوۂ احزاب (خندق) تک کے پانچ برس انتہائی کٹھن مصائب کا دور ہے. ان سترہ برسوں میں گویا نبی اکرم  اور آپ ؐ کے ساتھیوں نے جہاد و قتال سے اپنے ایمان اور عمل صالح کا ثبوت فراہم کر دیا تھا. اس کے بعد فرمایا گیا کہ ’’اے نبیؐ ! بشارت دے دیجیے کہ آپ ؐ اور آپ ؐ کے ساتھی ہمارے امتحانات میں کامیاب ہو گئے ہیں‘ اب ہماری مدد آیا چاہتی ہے اور فتح تمہارے قدم چوما چاہتی ہے!‘‘

میں نے جو عرض کیا ہے کہ محض دُعاؤ ں سے یہ کام نہیں ہو گا‘ تو اس کا تجربہ خود آپ بھی کر چکے ہیں. ۱۹۷۱ء کی جنگ میں بھارت کے خلاف ہماری دعاؤں کا کیا حشر ہوا؟ بہت سی مساجد میں قنوتِ نازلہ (۵کا اہتمام کیا گیا. کتنی ہی صبحیں تھیں جن میں یہ مؤثر دُعا بڑی الحاح و زاری کے ساتھ پڑھی گئی. مگر نتیجہ کیا برآمد ہوا؟ اس سے معلوم ہوا کہ دُعا کے بھی کچھ قواعد و ضوابط ہیں. پروردگارِ عالم یہ بھی دیکھتا ہے کہ مانگنے والا کون ہے! ہمارے دین اور ہماری شریعت کے بارے میں اس کا رویہ کیا ہے؟ اس کا ذاتی کردار کیا ہے؟ لہذا دُعاؤں میں بھی اثر تب ہو گا جب ہم اپنے عمل سے ثابت کر دیں گے کہ ہم دعا کے اہل ہیں. (۶)

(۳) غیر حکیمانہ محنت و مشقت:

تیسری بات بہت ہی اہم ہے کہ یہ کام محض محنت و مشقت سے بھی نہیں ہو گا‘چاہے یہ محنت و مشقت اپنے آخری درجے کو پہنچی ہوئی ہی کیوں نہ ہو. ہماری محنت و مشقت تب ثمر آور ہو گی جب یہ طریق ِمحمد  کے مطابق ہو. مجرد قربانیاں دیتے چلے جانے سے نہ پہلے کچھ ہوا نہ اب کچھ ہو گا. آپ کے سامنے کی بات ہے کہ افغانستان میں دس لاکھ جانیں اخلاص و خلوص کے ساتھ دی گئیں‘ لیکن نتیجہ کیا ہے ؟باہم د ست و گریباں ہیں‘ اس لیے کہ جدوجہدطریق نبوی ؐ سے ہٹ کر کی گئی. اگرچہ یہ بات اپنی جگہ ہے کہ وہاں جو خون خلوص کے ساتھ دیا گیا ہے وہ اللہ کے حضور ضائع نہیں جائے گا. اللہ تعالیٰ اس دُنیا میں بھی کوئی نتیجہ نکالیں گے‘ لیکن ابھی تک نہیں نکلا. جو چیز ہمیں نظر آ رہی ہے وہ تو خانہ جنگی ہے. اسی طرح تحریک ِپاکستان کے دوران لاکھوں جانوں کی قربانی دی گئی‘لیکن یہاں اسلام تو پھر بھی نہیں آیا. یہ مثالیں ہماری آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں. بقول شیخ سعدیؒ :

خلافِ پیمبرؐ کسے رہ گزید
کہ ہرگز بمنزل نہ خواہد رسید!

دو بزرگ شخصیتوں کے حوالے سے یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہماری قربانیاں طریق محمدیؐ پر چل کر ہی رنگ لا سکتی ہیں. ان دو بزرگوں میں سے ایک انبیاء کے بعد افضل البشر بالتحقیق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں اور دوسری شخصیت امام دارالہجرت امام مالک رحمہ اللہ علیہ کی ہے. حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اپنا جانشین نامزد کیا تو اس موقع پر آپ ؓنے ایک بہت پیارا خطبہ ارشاد فرمایا. اس خطبے میں آپؓ نے فرمایا: ’’لا یصلح آخرہ الا بما صلح بہ اولہ‘‘ یعنی ایک بات اچھی طرح جان لو کہ اس معاملے (نظام خلافت) کے آخری حصے کی اصلاح نہیں ہو گی مگر اسی طور سے جس طور سے پہلے حصہ کی اصلاح ہوئی. حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اس قول کو مزید واضح کرکے امام مالکؒ نے بیان کیا کہ ’’لن یصلح آخر ھذہ الامۃ الا بما صلح بہ اولہ‘‘ یعنی اس اُمت کے آخری حصے کی اصلاح نہیں ہو گی مگر صرف اس طور سے جس طور سے کہ پہلے حصے کی اصلاح ہوئی تھی.

اس بات کو اپنے قلب و دماغ میں کندہ کر لینا چاہئے کہ دوسروں سے مستعار لیے گئے طریقوں سے نتیجہ برآمد نہیں ہو گا. اور اس بات کو بھی اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ طریق ِمحمدیؐ کے کسی ایک جزو پر عمل کر کے بھی منزل سر نہ ہو گی. ہمیں سیرتِ محمدی ؐ میں دیکھنا ہو گا کہ کیا چیز پہلے تھی اور کیا بعد میں.سیرت کا مطالعہ ایک کل کی حیثیت سے ہونا چاہیے. میں نے یہ بات اس مفصل حدیث ِمبارکہ کے حوالے سے آپ کے سامنے رکھی تھی کہ اس اُمت کا پہلا حصہ بھی خلافت علیٰ منہاجِ النبوۃ پر ہے اور آخری حصہ بھی خلافت علیٰ منہاجِ النبوۃ پر ہو گا. اب اس حدیث کو سامنے رکھ کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت امام مالکؒ کے اقوال پر تدبر کیجیے. فرمایا کہ اس اُمت کے آخری حصے کی اصلاح نہیں ہو سکے گی مگر اسی طور سے کہ جس طور سے پہلے حصے کی اصلاح ہوئی. اس سے ظاہر ہوا کہ جس طریق کار سے خلافت علیٰ منہاجِ النبوۃ کا نظام اُس وقت قائم ہوا تھا اسی طریق پر چلیں گے تو وہ نظام دوبارہ قائم ہوگا‘ ورنہ نہیں .