دعوت و تبلیغ کے علاوہ پوری دنیا میں جو دوسرا ’’پاپولر‘‘ طریقہ رائج ہے وہ الیکشن کا طریقہ ہے‘ اور جس شے کا چلن ہو جاتا ہے اس میں لوگوں کو سو خوبیاں نظر آنے لگتی ہیں. الیکشن بھی ان طریقوں میں سے ہے جو ہم کو اُستادانِ مغرب نے سکھائے ہیں. اقبال نے ان پر پھبتی کستے ہوئے کہا ہے: ؎ 

اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے
الیکشن ‘ ممبری ‘ کونسل ‘ صدارت
بنائے خوب آزادی نے پھندے!

جیسا کہ میں نے عرض کیا ‘ایک چیز کا جب چلن ہو جاتا ہے تو وہ ذہنوں پر اپنا پورا تسلط جما لیتی ہے. اس وقت نہ معلوم کتنی جماعتیں اور کارکنان انتہائی اخلاص کے ساتھ اپنی توانائیاں اس طریق کار کے تحت کھپا رہے ہیں. یہ بات میں پورے خلوصِ دل سے کہہ ر ہا ہوں کہ جتنی جماعتیں بھی اس طریق کار کو اپنائے ہوئے ہیں ان کے کارکنان کے اخلاص میں مجھے ذرّہ برابر شک نہیں ہے. ہر جماعت کے پیچھے چلنے والوں کی اکثریت مخلص ہی ہوا کرتی ہے اور ان ہی مخلص کارکنوں کے دم سے ان جماعتوں کا وجود قائم ہے. ہاں یہ ممکن ہے کہ لیڈروں میں سے کسی کا معاملہ مختلف ہو‘لیکن ان میں سے بھی کسی کے بارے میں ہم یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتے‘اس لیے کہ نیت کا حال تو صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے.

ان تمام بزرگوں اور کارکنوں کے اخلاص کو تسلیم کرتے ہوئے میں یہ ضرور کہوں گا کہ ان کا یہ خیال کہ انتخابات کے راستے سے نظام بدلا جا سکے گا‘ بہت بڑی نادانی ہے. اس ضمن میں میں ایک آخری درجے کی مثال بیان کر رہا ہوں کہ اگر نبی اکرم انتخابات کے ذریعے جزیرہ نمائے عرب میں اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتے تو کیا ایسا کر سکتے تھے؟ یہ بات میں نے ذرا ڈرتے ڈرتے کہی ہے کہ اس کو آنحضرت  کی شان میں گستاخی نہ قرار دے دیا جائے. لیکن ایک اور مثال ماضی قریب سے پیش کرنا چاہتا ہوں. کیا ایران میں آیت اللہ خمینی صاحب کی حکومت انتخابات کے ذریعے قائم ہو سکتی تھی؟ کوئی ایک شخص بھی اس سوال کا جواب اثبات میں نہیں دے سکتا. پھر اگر اس ضمن میں آپ کو قرآن کی نص مطلوب ہے تو وہ یہ ہے:

وَ اِنۡ تُطِعۡ اَکۡثَرَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ یُضِلُّوۡکَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ (الانعام:۱۱۶)
’’اگر تم زمین میں بسنے والوں کی اکثریت کی پیروی کرو گے تو وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بھٹکا کر چھوڑیں گے.‘‘

جبکہ الیکشن کا سارا دارومدار اکثریت اور اقلیت پر ہے. پورا نظام ہی اس مفروضے پر چل رہا ہے کہ اکثریت حق پر اور اقلیت باطل پر ہے.

اب نص قرآنی کے بعد اگر عقلی دلیل مطلوب ہے تو وہ بھی موجود ہے. یہ بات ہر آدمی جانتا ہے کہ ہر ملک ایک مخصوص politico-socio-economic ڈھانچے پر قائم ہوتا ہے. بعض ممالک میں جاگیردارانہ نظام ہے تو بعض میں سرمایہ دارانہ نظام نے اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں. کہیں آپ دیکھیں گے کہ قبائلی نظام رائج ہے‘ جس کے تحت قبائلی سردار ہی طاقت کا سرچشمہ ہوتے ہیں. آپ اس نظام میں رہتے ہوئے انتہائی عمدہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کا انعقاد کر لیجیے‘اس الیکشن میں بھی وہی politico-socio-economic structure ہی نمایاں ہو کر سامنے آئے گا جو اس معاشرے میں رائج ہے. آپ جانتے ہیں کہ پاکستان میں ۷۰ فی صد آبادی دیہات پر مشتمل ہے‘اور یہ سب جاگیرداروں اور وڈیروں کے مزار عین ہیں. ان حالات میں آپ تبدیلی کیسے لائیں گے؟ اس نظام کے اندر انتخابات سے یہ تو ہو جائے گا کہ ایک لغاری کی جگہ دوسرا لغاری آ جائے‘اسی طرح ایک مزاری کی بجائے دوسرا مزاری اورایک جتوئی کی جگہ دوسرا جتوئی منتخب ہو جائے. لیکن ان کو ہٹا کر کوئی اور نہیں آئے گا. شہروں میں ممکن ہے کوئی تبدیلی آ جائے ‘اس لیے کہ شہروں میں جاگیرداروں کاقبضہ دیہاتوں جیسا نہیں ہے. شہروں میں کوئی عوامی تحریک چل سکتی ہے‘ جیسا کہ ایم‘کیو ایم کی تحریک کراچی میں چلی ہے. لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ شہروں کی کوئی تبدیلی اس ملک کے اندر بحیثیت مجموعی فیصلہ کن نہیں ہو سکتی اگر اس تبدیلی کی اساس انتخابات ہوں.

ان تمام دلائل کو سامنے رکھتے ہوئے اگر تھوڑی دیر کے لیے انسان سوچے تو اسی نتیجے پر پہنچے گا کہ انتخابی طریق کار ہرگز کارگر نہیں ہو سکتا. یہ الگ بات ہے کہ چونکہ انتخابی سیاست گھٹی میں پڑ گئی ہے‘اس لیے اس سے جان کیسے چھڑائی جا سکتی ہے؟ انتخابی سیاست کو نہ چھوڑنے کی وجہ یہ بھی ہے کہ کچھ لوگوں کو قومی اسمبلی‘سینٹ یا صوبائی اسمبلیوں میں کچھ سیٹیں مل جاتی ہیں. ان چند سیٹوں کے لیے اپنے وسائل اور کارکنان کی صلاحیتوں کو قربان کیا جا رہا ہے. پاکستان میں پہلا الیکشن ۱۹۵۱ء میں پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے لیے ہو ا تھا اور اب ۱۹۹۴ء ہے‘آپ اندازہ لگائیں ۴۲ سال بیت گئے ہیں. تقریباً نصف صدی کے ان ناکام تجربوں کے بعد بھی عقل نہ آئے تو اسے کیا کہا جائے! قرآن حکیم کہتا ہے: حَتّٰۤی اِذَا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَ بَلَغَ اَرۡبَعِیۡنَ سَنَۃً (الاحقاف: ۱۵یعنی بچہ بھی چالیس برس کی عمر کو شعوری اعتبار سے پختہ ہو جاتا ہے. کاش ہماری دینی جماعتوں کو بھی کوئی سبق حاصل ہو جائے اور وہ اپنے اختیار کردہ راستے پر نظر ثانی کے لیے تیار ہو جائیں.