انقلابی جدوجہد کے مراحل و مدارج کا ادراک فقط سیرۃ النبی ؐ سے حاصل کیا جا سکتا ہے. میں اپنے اس دعوے کو دو حوالوں سے واضح اور مبرہن کرنا چاہتا ہوں. اس دعوے کی پہلی دلیل یہ ہے کہ دنیا میں دوسرے جتنے بھی انقلاب آئے ہیں وہ سب جزوی تھے. پوری انسانی تاریخ میں ہر اعتبار سے کامل انقلاب کی واحد مثال ’’انقلابِ محمدیؐ ‘‘ ہے. سوا دو سو سال قبل برپا ہونے والے ’’انقلابِ فرانس‘‘ کا بہت چرچا ہے‘ لیکن اس انقلاب سے صرف سیاسی ڈھانچہ تبدیل ہوا تھا. اس کے نتیجے میں نہ عقائد بدلے‘نہ اخلاق بدلے‘نہ معاشرت بدلی‘حتیٰ کہ معاشی ڈھانچہ بھی بڑی حد تک جوں کا توں رہا. گویا اجتماعی زندگی کا صرف ایک پہلو تبدیل ہوا.

اسی طرح اس صدی کے آغاز میں بالشویک (سوشلسٹ) انقلاب سے صرف معاشی ڈھانچہ تبدیل ہوا اور نئے معاشی ڈھانچے کی بنیاد نجی ملکیت 
(private ownership) کو ختم کر کے تمام وسائل ِدولت کو قومیانے (nationalize) پررکھی گئی. مگر اس معاشی ڈھانچے کی تبدیلی سے عقائد‘اخلاق‘اقدار اور تہذیبی روایات اور اندازِ فکر و نظر میں جس انقلابی تبدیلی کے وعدے کیے گئے تھے وہ سب باطل ثابت ہوئے.

ان دونوں انقلابات کے برعکس اگر نبی اکرم  کے برپا کردہ انقلاب کو دیکھا جائے تو ہمیں انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو خردبین کے نیچے رکھ کر تلاش کرنا پڑے گا کہ اس میں سے کون سی شے تبدیل ہونے سے بچ گئی. لوگوں کے عقائد بدل گئے‘نظریات بدل گئے‘اقدار بدل گئیں‘غرض زندگی کے شب و روز اور صبح و شام تک بدل گئے. معاشی اور سیاسی ڈھانچہ ہی نہیں تبدیل ہوا‘بلکہ ایک ایسی قوم جس کے سب سے متمدن قبیلے میں لکھنا پڑھنا جاننے والے انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے وہ علم و تحقیق میں بھی دُنیا کی امام بن گئی اور قدیم علوم کے احیاء کے علاوہ بہت سے جدید علوم و فنون کی موجِد قرار پائی. وہ جھگڑالو قوم جس کو قرآن حکیم نے 
’’قومًا لُدًّا‘‘ کہا ہے اور مولانا حالی نے جس کا نقشہ اس طرح کھینچا ہے: ؎ 

کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا
کہیں گھوڑا آگے بڑھانے پہ جھگڑا

وہ دنیا کی مہذب ترین قوم بن گئی اور ایسی امن پسند ہو گئی کہ حضور اکرم  کی پیشین گوئی کے مطابق ایک عورت صنعاء سے حضر موت تک سفر کرتی اور اس کو اللہ کے سوا کسی کا ڈر نہ ہوتا.عورتیں ان راہوں پر سفر کرنے لگیں جہاں بدرقوں کے بغیر بڑے بڑے قافلوں کا نکل جانا آسان نہ تھا. جو قوم نظم سے قطعاً ناآشنا تھی اور جس کا ہر فرد فرعونِ بے سامان بنا ہوا تھا وہ نظم کی ایسی خوگر ہو گئی کہ ان کی پنج و قتہ عبادت پر بھی اذان‘اقامت‘صف بندی اور امام کے cautions کے باعث کسی فوجی ڈرل کا گمان ہونے لگا. یہ ہے وہ انقلابِ عظیم جو محمد رسول اللہ  نے برپا کیا تھا.

انقلابِ محمد  اور دوسرے انقلابات میں ایک اور فرق بھی موجود ہے کہ دوسرے جتنے بھی انقلاب برپا ہوئے وہ کئی نسلوں 
(generations) میں جا کر مکمل ہوئے. ایک نسل نے صرف فکر دیا‘ گویا اس نسل میں مفکرین پیدا ہوئے. یہ مردِ میدان تو تھے نہیں کہ کسی انقلابی جدوجہد کا آغاز کر کے اسے کامیاب بناتے. تاریخ میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں. مثلاً والٹیر اور روسو بہت بڑے مفکر اور مصنف ضرور ہیں‘چنانچہ انقلابِ فرانس کی پشت پر انہی کا فکر کار فرما تھا‘ لیکن انقلاب کا عملی قائد تو روسو نہ تھا‘بلکہ انقلابِ فرانس کا تو سرے سے کوئی قائد ہی نہ تھا اور اسی لیے یہ ایک بڑا خونی انقلاب ثابت ہوا. 

دوسرا انقلاب جس کا میں نے ذکر کیا ہے‘ بالشویک انقلاب ‘تو اس کی پشت پر کارل مارکس اور اینجلز کے افکار موجود تھے. کارل مارکس نے 
Das Capital جیسی یادگار کتاب لکھی. علامہ اقبال نے اس کے اور اس کی کتاب کے بارے میں کہا تھا: ’’ نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب‘‘ (پیغمبر تو نہیں ہے مگر اپنی بغل میں کتاب رکھتا ہے). اس میں کوئی شک نہیں کہ مارکس نے فکر دیا‘لیکن وہ خود اپنی زندگی میں کسی ایک گاؤ ں میں بھی انقلاب برپا نہ کر سکا. اس نے اپنی کتاب جرمنی اور انگلستان میں مکمل کی (اور اس کے فلسفے کے مطابق انقلاب بھی انہی مکمل صنعتی اور سرمایہ دار ممالک میں آنا تھا)‘ جبکہ انقلاب آیا روس جیسے صنعتی لحاظ سے پس ماندہ زرعی معیشت رکھنے والے ملک ہیں!

اس کے مقابلے میں دیکھئے انقلابِ محمدی ؐ میں تمام مراحل اور مدارج فردِ واحد کی اپنی زندگی ہی میں تکمیل پذیر ہو گئے. آپؐ تن تنہا دعوت کا آغاز کر رہے ہیں. نہ آپؐ کے پاس کوئی جماعت ہے‘نہ کوئی ادارہ ہے اور نہ پہلے سے بنی ہوئی کوئی اُمت ہے.آغازِ دعوت میں آپؐ کی زوجہ محترمہ آپؐ کے جگری دوست آپؐ کے آزاد کردہ ایک غلام اور آپؐ کے چچا زاد کم عمر بھائی 
(۱۳ایمان لائے. دس سال کی محنت ِشاقہ سے بمشکل سوا سو یا ڈیڑھ سو لوگ ایمان لائے. پھر وہی فردِ واحد  کوہ صفا پر کھڑے ہو کر ’’واصبا حاہ‘‘ کا نعرہ بھی لگاتا ہے. اور آپ دیکھیں کہ ایک مرحلے میں وہی شخصمیدانِ بدر میں فوج کی قیادت بھی فرما رہا ہے.یہاں تک کہ انقلاب کی تکمیل تک اکیلا وہی شخص  تمام مراحل میں قیادت کے تمام تقاضے پورے کرتا رہا. یہ بات آپ کو پوری انسانی تاریخ میں اور کہیں نہیں ملے گی. اس اعتبار سے بھی ہم کو یقین کر لینا چاہیے کہ اس انقلابی عمل کا واحد ذریعہ اور ماخذ سیرتِ محمدی ؐ ہے.