دعوتِ ایمان بذریعہ قرآن اور تربیت و تزکیہ

پہلا مرحلہ ’’دعوتِ ایمان بذریعہ قرآن‘‘ ہے. ہر نظام کی کوئی فلسفیانہ بنیاد ہوتی ہے‘ جب تک یہ فلسفہ ذہن میں نہ بیٹھ جائے اس انقلاب کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا جا سکتا. اسلام کی نظریاتی اور فلسفیانہ بنیاد ’’ایمان‘‘ ہے (۱۴مگر ہماری عظیم اکثریت کا حال یہ ہے کہ ہم ایمان سے محروم ہیں. ہم اس لیے مسلمان ہیں کہ مسلمان والدین کے گھرمیں پیدا ہوئے ہیں. بس ایک موروثی عقیدہ ہے جو ہمارے ذہن کے کسی گوشے میں موجود ہے. اس عقیدے کا ہمارے فکر و عمل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں. ہماری وہ اقدار جن سے ہم اپنا طرزِ عمل متعین کرتے ہیں‘ان کا ہمارے عقیدے سے کوئی تعلق نہیں ہے. اِلاماشاء اللہ‘ اس کیفیت سے بچے ہوئے بہت کم لوگ ہیں. ہم میں سے بیشتر لوگوں کا حال یہی ہے کہ بس مسلمان ہیں‘ اور اس کو بھی اللہ کا بڑا فضل ہی سمجھنا چاہیے کہ اس نے ہم کو مسلمانوں کے گھر میں پیدا کیا‘ورنہ خدانخواستہ اگر ہماری پیدائش کسی ہندو یا عیسائی کے گھر میں ہوتی تو ہم میںسے کتنے لوگ ایمان قبول کر لیتے؟ اس حوالے سے ہر شخص اپنا جائزہ خود لے سکتا ہے.

سورۃ الحجرات کی آیت ۱۵ میں ایمان کو define کر دیا گیا ہے. ارشادہے:

اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ثُمَّ لَمۡ یَرۡتَابُوۡا وَ جٰہَدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوۡنَ ﴿۱۵﴾ (الحجرات)
’’مؤمن تو صرف وہ ہیں جو ایمان لائے اللہ پر اور اس کے رسولؐ پر‘ پھر شک میں نہ پڑے اور اللہ کی راہ میں اپنی جانوں اورمال کے ساتھ جہاد کیا. یہی لوگ (اپنے دعوائے ایمان میں) سچے ہیں.‘‘

اس آیت کریمہ میں حقیقی ایمان کا ذکر ہے‘ یعنی وہ ایمان جو یقین کے درجے کو پہنچ چکا ہو.بقول اقبال: ؎ 

یقیں پیدا کر اے ناداں‘ یقیں سے ہاتھ آتی ہے
وہ درویشی کہ جس کے سامنے جھکتی ہے فغفوری!

سورۃ الحجرات کی مذکورہ بالا آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ ایمان و جہاد لازم و ملزوم ہیں. یہ ممکن نہیں ہے کہ دل میں حقیقی ایمان موجود ہو اور عمل میں جہاد نہ ہو. لہذا اس انقلابی عمل کا پہلا مرحلہ ’’دعوتِ ایمان بذریعہ قرآن‘‘ ہے. اسی لیے سورۃ النساء کی آیت ۱۳۶ میں فرمایا گیا ہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ الۡکِتٰبِ الَّذِیۡ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ وَ الۡکِتٰبِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ مِنۡ قَبۡلُ ؕ 

’’اے ایمان والو! ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسولؐ پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسولؐ پر نازل کی اور اس کتاب پر جو اس سے پہلے اس نے نازل کی.‘‘

اس آیۂ مبارکہ میں گویا کہا گیا ہے کہ قانونی ایمان تو تم کو پہلے ہی حاصل ہے‘لیکن حقیقی ایمان جو بہت بڑی قوت ہے‘اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرو.

اس موقع پر ایک بات اور یاد رکھنی چاہیے کہ قرآن کے علاوہ بھی حصولِ ایمان کے کچھ راستے ہیں. میں خود تسلیم کرتا ہوں کہ حصولِ ایمان کا سب سے آسان ذریعہ اصحابِ ایمان ویقین کی صحبت اختیار کرنا ہے. قرآن مجید میں بھی فرمایا گیا: 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ ﴿۱۱۹﴾ (التوبۃ)
’’اے ایمان لانے والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور سچوں کی معیت اختیارکرو.‘‘ 

کہیں آگ جل رہی ہو تو اس کے قریب رہنے سے حرارت خود بخود پہنچے گی‘ اس کے بعد کسی اور محنت کی ضرورت نہیں. گویا اصحابِ ایمان کا قرب ہی کافی ہے. ؎ 

صحبت صالح ترا صالح کند
صحبت طالح ترا طالح کند

حصول ایمان کا دوسرا راستہ احکامِ خداوندی پر عمل پیرا ہونا ہے. ایمان اور عمل صالح دو طرفہ اثرات کے حامل ہیں. ایمان عمل صالح سے پیدا ہوتا ہے اور عمل صالح میں اضافہ ایمان میں اضافے کا ذریعہ بنتا ہے. گویا مسلسل عمل سے بھی ایمان پیدا ہوتا ہے. اس صورت حال کو تسلیم کرنے کے باوجود اب جو بات میں کہنا چاہتا ہوں وہ بہت اہم ہے کہ ان دونوں طریقوں سے جو ایمان پیدا ہوتا ہے وہ غیر شعوری ہوتا ہے. اس قسم کے ایمان کے ساتھ شعوری عنصر (intellectual element) شامل نہیں ہوتا.ان طریقوں سے جو ایمان پیدا ہوتا ہے اس کو اندھا اعتقاد (blind faith) کہنا زیادہ مناسب ہے. تاہم اس غیر شعوری ایمان کا بھی اثر عمل پر پڑے گا.

چنانچہ ایسا ایمان رکھنے والا شخص بھی اس راہ میں کوئی قربانی دینے میں کمی نہیں کرے گا. یہ تقلیدمحض بھی بڑی نعمت ہے‘ لیکن یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ انقلابی عمل کے آغاز کے لیے بہرحال اُس شعوری ایمان کی ضرورت ہے جس کے ساتھ conviction شامل ہو‘اور یہ یقین ِکامل بصیرت با طنی کے بغیر پیدا نہیں ہوتا. انقلابی عمل جب ان مراحل میں داخل ہو جائے جب جان کی بازی کھیلنے کی ضرورت ہوتی ہے اس وقت یہ تقلید ِمحض والے اگر مل جائیں تو یہ بھی بڑے قیمتی ثابت ہوں گے‘ اس لیے کہ اس وقت جان کی بازی کھیلنے کے لیے ان میں بھی پوری قوت اور آمادگی ہوتی ہے.