شعوری ایمان کا تذکرہ سورۂ یوسف کی آیت ۱۰۸ میں اس طرح کیا گیا ہے:

قُلۡ ہٰذِہٖ سَبِیۡلِیۡۤ اَدۡعُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ ۟ؔ عَلٰی بَصِیۡرَۃٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیۡ ؕ
’’(اے نبیؐ !) کہہ دیجیے کہ( اے لوگو!) یہ ہے میرا راستہ. میں اللہ کی طرف پوری بصیرت کے ساتھ بلا رہا ہوں اور وہ بھی جنہوں نے میری اتباع کی.‘‘ (۱۵)

یہ بہت بڑی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود آنحضرت  کی زبانِ مبارک سے شہادت دلوائی ہے کہ نہ صرف آپؐ خود بلکہ آپؐ کے متبعین بھی اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں نہیں مار رہے ہیں‘ بلکہ نورِ بصیرت سے بہرہ ور ہیں. یہ وہ ایمان ہے جس کے ساتھ شعور اور بصیرتِ باطنی موجود ہے. اس قسم کے ایمان کے حصول کا واحد سرچشمہ اور منہج قرآن حکیم ہے.قرآن کے سوا یہ کہیں اور سے مل ہی نہیں سکتا. بقول مولانا ظفر علی خاں : ؎ 

وہ جنس نہیں ایمان جسے لے آئیں دکانِ فلسفہ سے
ڈھونڈے سے ملے گی عاقل کو یہ قرآں کے سیپاروں میں

اسی طرح علامہ اقبال نے ایک بہت اچھا شعر اپنی زندگی کے آخری ایام میں کہا ہے: ؎

تیری نظر میں ہیں تمام میرے گزشتہ روز و شب
مجھ کو خبر نہ تھی کہ ہے علم نخیل بے رطب

گویا فرماتے یہ ہیں کہ انہوں نے جتنا کچھ فلسفہ وغیرہ علوم پڑھے تھے وہ سب نخیل بے رطب (نہ پھلنے والا کھجور کا درخت) تھے. یہی وجہ ہے کہ وہ ایک دوسرے شعر میں فرماتے ہیں: ؎

خرد کی گتھیاں سلجھا چکا میں
مرے مولا مجھے صاحب جنوں کر 

اس شعوری ایمان کا ذکر قرآن مجید بار بار مختلف اسالیب میں کرتا ہے. مثلاً سورۂ آل عمران میں شعوری ایمان رکھنے والوں کا ذکر اس طرح فرمایا ہے:
الَّذِیۡنَ یَذۡکُرُوۡنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوۡدًا وَّ عَلٰی جُنُوۡبِہِمۡ وَ یَتَفَکَّرُوۡنَ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقۡتَ ہٰذَا بَاطِلًا ۚ (آیت ۱۹۱)

’’جو اللہ کا ذکر اٹھتے بیٹھتے کرتے ہیں اور پہلوؤ ں پر (لیٹے ہوئے) بھی اور آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے پر غور کرتے ہیں. (اور اس شعوری نتیجے تک پہنچ جاتے ہیں کہ) اے ہمارے رب! یہ سب کچھ تو نے بے مقصد پیدا نہیں کیا.‘‘

اسی طرح عقل و شعور اور فکر و تدبر کی اہمیت کے اظہار کے لیے ‘ لَّعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ ‘ لِّقَوۡمٍ یَّعۡقِلُوۡنَ ‘لَعَلَّکُمۡ تَتَفَکَّرُوۡنَ ‘اَفَلَا یَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ اور لِّیَدَّبَّرُوۡۤا اٰیٰتِہٖ وغیرہ مختلف اسالیب اختیار کیے گئے ہیں.

قرآنِ مجید ہی شعوری ایمان کا سرچشمہ ہے. اس حقیقت کے عقلی دلائل کے علاوہ نقلی دلائل بھی موجود ہیں ـ. سب سے بڑھ کریہ بات کہ نبی اکرم  کی دعوت کے لیے جتنی بھی اصطلاحات قرآن مجید میں وارد ہوئی ہیں ان سب کے لیے قرآن ہی کو ذریعہ اور وسیلہ معین کیا گیا ہے مثلا: 

فَذَکِّرۡ بِالۡقُرۡاٰنِ (ق:۴۵)

’’تو تم اس قرآن کے ذریعے تذکیر کرو.‘‘ وَ اُوۡحِیَ اِلَیَّ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنُ لِاُنۡذِرَکُمۡ بِہٖ (الانعام : ۱۹)

’’اور(کہئے) میری طرف یہ قرآن نازل کیا گیا ہے تاکہ میں اس کے ذریعے اِنذار کروں.‘‘ 

فَاِنَّمَا یَسَّرۡنٰہُ بِلِسَانِکَ لِتُبَشِّرَ بِہِ الۡمُتَّقِیۡنَ وَ تُنۡذِرَ بِہٖ قَوۡمًا لُّدًّا ﴿۹۷﴾ (مریم)

’’تو ہم نے اس کو تمہاری زبان پر صرف اس لیے رواں کر دیا ہے کہ تم اس کے ذریعے متقین کو تبشیر کرو اور جھگڑالو قوم کو انذار!‘‘

بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ (المائدہ : ۶۷
’’تبلیغ کریں اس کی جو آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیاگیا.‘‘

وَ جَاہِدۡہُمۡ بِہٖ جِہَادًا کَبِیۡرًا ﴿۵۲﴾ (الفرقا ن) 
’’اور اسی (قرآن) کے ذریعے ان سے جہادِ کبیر کیجیے.‘‘

دیکھئے ’’تبلیغ‘‘‘’’تذکیر‘‘ ‘’’انذار‘‘ ‘’’تبشیر‘‘ اور ’’جہاد‘‘ سب کے لیے قرآن حکیم کو وسیلہ بنانے کی ہدایت کی گئی ہے. یہی وجہ ہے کہ آپ جہاں بھی جاتے وہاں لمبے چوڑے خطبے دینے کے بجائے قرآن مجید ہی پڑھ کر سناتے تھے.