محمدٌ رسول اللہ  نے نظم جماعت کو بیعت کی بنیاد پر استوار کیا. خود قرآن مجید میں سورۃ الفتح کی آیت ۱۰ میں بھی بیعت کا ذکر موجود ہے. چنانچہ فرمایا: (۲۴)

اِنَّ الَّذِیۡنَ یُبَایِعُوۡنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوۡنَ اللّٰہَ ؕ یَدُ اللّٰہِ فَوۡقَ اَیۡدِیۡہِمۡ ۚ
’’(اے نبیؐ !) بے شک جو لوگ آپ ؐ سے بیعت کر رہے ہیں وہ تو اللہ سے بیعت کر رہے ہیں. ان کے ہاتھوں کے اوپر اللہ کا ہاتھ ہے.‘‘

عام طور پر بیعت لینے کی عملی شکل یہ ہوتی ہے کہ جو شخص بیعت کرتا ہے اس کا ہاتھ اوپر ہوتا ہے اور جس کے ہاتھ پر بیعت کی جاتی ہے اس کا ہاتھ نیچے ہوتا ہے. اس آیت میں بتایا یہ جا رہا ہے کہ بیعت کرتے ہوئے ایک ہاتھ آپ کا ہے‘ایک بیعت کرنے والے کا ہے اور ایک تیسرا ہاتھ بھی ہے جو اللہ کا ہے مگر وہ نظر نہیں آتا. یہ اللہ کا ہاتھ اس لیے ہے کہ جو سودا (بیعت) ہو رہا ہے وہ دراصل اللہ کے ساتھ ہو رہا ہے.

سورۃ التوبۃ میں ’’بیع وشراء‘‘ دونوں الفاظ اپنی پوری جامعیت کے ساتھ اطاعت کلی کے قول و قرار اور عہد وپیمان کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں. ارشاد ہے:

اِنَّ اللّٰہَ اشۡتَرٰی مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَنۡفُسَہُمۡ وَ اَمۡوَالَہُمۡ بِاَنَّ لَہُمُ الۡجَنَّۃَ ؕ یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ فَیَقۡتُلُوۡنَ وَ یُقۡتَلُوۡنَ ۟ وَعۡدًا عَلَیۡہِ حَقًّا فِی التَّوۡرٰىۃِ وَ الۡاِنۡجِیۡلِ وَ الۡقُرۡاٰنِ ؕ وَ مَنۡ اَوۡفٰی بِعَہۡدِہٖ مِنَ اللّٰہِ فَاسۡتَبۡشِرُوۡا بِبَیۡعِکُمُ الَّذِیۡ بَایَعۡتُمۡ بِہٖ ؕ وَ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿۱۱۱﴾ (التوبۃ)

’’یقینا اللہ نے مؤمنوں سے ان کی جان اور ان کے مال جنت کے بدلے میں خرید لیے ہیں. وہ اللہ کی راہ میں قتال کرتے ہیں‘قتل کرتے ہیں اور قتل ہوتے ہیں. اللہ کی طرف سے یہ پختہ وعدہ ہے تورات میں‘انجیل میں اور قرآن میں بھی. بھلا اللہ سے بڑھ کر اپنے وعدے کو پورا کرنے والا کون ہے؟ تو خوش ہو جاؤ اپنے اس سودے پر جو تم نے کیا ہے. اور یہی عظیم کامیابی ہے.‘‘

رہا یہ سوال کہ اس دنیا میں یہ فروخت شدہ جان و مال اللہ کے دین کے غلبے اور نظامِ خلافت کو برپا کرنے میں کیسے لگانا ہے‘ تو اسے کسی نظم جماعت ہی کے تحت لگانا ہوگا. اس نظم جماعت کا جو صاحب ِامر ہے اس کے ہاتھ پر بیعت ِسمع و طاعت کرنی ہو گی. اُس وقت صاحب امر حضرت محمد  خود تھے اور بنفس نفیس موجود تھے‘لہذا آپؐ ہی کے ہاتھ پر بیعت کی گئی. اگرچہ حضور کو بیعت لینے کی ضرورت نہ تھی‘اس لیے کہ آپ ؐ رسول اور نبی تھے اور آپ ؐ پر ایمان لانے والا ہر شخص آپؐ کی اطاعت کا پابند تھا. قرآن میں ارشاد ہوا ہے: وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ (النساء:۶۴’’ہم نے کوئی رسول بھیجا ہی نہیں مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے.‘‘ ایک دوسرے مقام پر ارشاد ہے: مَنۡ یُّطِعِ الرَّسُوۡلَ فَقَدۡ اَطَاعَ اللّٰہَ ۚ (النساء:۸۰’’جو رسول کی اطاعت کرے گا تو یقینا اس نے اللہ کی اطاعت کی.‘‘ (۲۵)

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب آپؐ بیعت کے بغیر بھی مطاع تھے تو آپؐ نے بیعت کیوں لی؟ کیا نعوذ باللہ آپ ؐ نے ایک بے ضرورت کام کیا؟ نہیں ‘ہر گز نہیں!وجہ یہ ہے کہ اگر آپ ؐ بیعت نہ لیتے تو بعد میں آنے والوں کے لیے اُسوہ کہاں سے آتا؟ اس لیے کہ آپ ؐ کے بعد کوئی نبی تو آنے والا نہیں ہے. حضرت مسیح علیہ السلام بھی آئیں گے تو نبی کی حیثیت میں نہیں آئیں گے. وہ تو نماز کی امامت بھی نہیں کرائیں گے اور امامت کرنے کی دعوت کے جواب میں کہیں گے ’’اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ‘‘ (تمہارا امام تمہی میں سے ہو گا). چنانچہ اب خلافت کے قیام کے لیے جو بھی جماعت بنے گی وہ اُسوۂ رسول پر ہی بنے گی. حضور  نے بیعت کا اسوہ اسی لیے چھوڑا ہے کہ یہ اُمت ِمسلمہ کی ضرورت تھی. اس بیعت کا ذکر کئی احادیث مبارکہ میں بھی موجود ہے. امام بخاری رحمہ اللہ علیہ نے وہ شعر نقل کیا ہے جس میں اس بیعت کا ذکر ہے‘ جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین غزوۂ احزاب میں بطورِ رجز خندق کھودتے ہوئے پڑھ رہے تھے:

نَحْنُ الَّذِیْنَ بَایَعُوْا مُحَمَّدًا
عَلَی الْجِھَادِ مَا بَقِیْنَا اَبَدًا

’’ہم وہی تو ہیں جنہوں نے محمد  سے زندگی کی آخری سانس تک جہاد جاری رکھنے کی بیعت کی ہے.‘‘

ایک اور حدیث مبارکہ میں اس بیعت کا ذکر نہایت جامعیت کے ساتھ آیا ہے. میں کہا کرتا ہوں کہ اس حدیث مبارکہ میں ایک اسلامی جماعت کا پورا دستور موجود ہے. حدیث کا متن اس طرح پر ہے:

عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِص قَالَ: بَایَعْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ  عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ فِی الْعُسْرِ وَالْیُسْرِ وَالْمَنْشَطِ وَالْمَکْرَہِ وَعَلٰی اَثَرَۃٍ عَلَیْنَا وَعَلٰی اَنْ لاَّ نُنَازِعَ الْاَمْرَ اَھْلَہٗ وَعَلٰی اَنْ نَّـقُوْلَ بِالْحَقِّ اَیْنَمَا کُنَّا لَا نَخَافُ فِی للّٰہِ لَوْمَۃَ لَائِمٍ وفی روایۃ : وَاَنْ لاَّ نُنَازِعَ الْاَمْرَ اِلاَّ اَنْ تَرَوْا کُفْرًا بَـوَاحًا عِنْدَکُمْ فِیْہِ مِنَ اللہِ بُرْھَانٌ (متفق علیہ)

’’عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ ہم نے رسول اللہ  سے تنگی اور آسانی‘خوشی اور ناخوشی‘ہرحالت میں‘حتیٰ کہ اپنے اوپر کسی کو ترجیح دینے کے باوجود سمع و طاعت کی بیعت کی‘اور اس بات پر بیعت کی کہ اہل حکم (اولوالامر) سے اختیارات کے معاملے میں نزاع نہ کریں گے‘اور حق بات کہیں گے جہاں بھی ہوں‘اللہ کے معاملے میں (یعنی خدا لگتی کہنے میں) کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کریں گے. اور ایک روایت میں ہے کہ ہم اہل امر سے نزاع نہیں کریں گے‘ا لاّ یہ کہ تم (ان کے اندر) کھلا کفر دیکھو جس پر تمہارے پاس اللہ کی طرف سے کوئی دلیل موجود ہو.‘‘