انقلابی دعوت کے ان مراحل کے دوران چار کام مسلسل کرتے رہنا ہوں گے. ان چار کاموں سے درویشی کے چار عناصر پورے ہو جاتے ہیں.

i) ’’دعوت ِایمان بذریعہ قرآن‘‘ مسلسل جاری رکھیں.
ii) قرآن ہی کے ذریعے تزکیہ کا عمل بھی مسلسل جاری رہنا چاہیے.
iii) اپنے آپ کو نظم کا خوگر بنا لیں. سمع و طاعت کی روش کو مسلسل پروان چڑھاتے رہیں.
iv) ہر قسم کے اشتعال دلانے کے مقابلے میں صبر سے کام لیا جائے. نہ تو مشتعل ہوں‘نہ مایوس ہوں کہ دعو تِ انقلاب ترک کر دیں. نہ طاقتور کے سامنے جھکیں. بلکہ اس حد تک صبر کریں کہ کوئی گالی بھی دے تو جواب میں گالی نہ دی جائے. کوئی پتھر مارے تو صبر سے کام لیں اور اس کے حق میں دعا کریں کہ اے اللہ! اس کو ہدایت دے. اس لیے کہ 
’’فَاِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ‘‘ وہ نہیں جانتے (کہ وہ کیا کر رہے ہیں).

صبر میں ایسا مقام بھی آ سکتا ہے کہ جسم کے ٹکڑے اڑا دیے جائیں‘لیکن یہ سب کچھ جھیلنا ہے. خواہ کتنا ہی تشدد کیا جائے مگر کوئی جوابی کارروائی نہیں ہونی چاہیے. سیرتِ مطہرہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ مکہ میں بارہ سال تک یہی عمل جاری رہا. حضرت سمیہ رضی اللہ عنہااور حضرت یاسر رضی اللہ عنہ کو شہید بھی کر دیا گیا لیکن کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی گئی‘ حالانکہ اُس وقت مکہ مکرمہ میں چالیس صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین موجود تھے اور یہ بھی تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ وہ بزدل نہ تھے. پھر بدلہ نہ لینے کی وجہ کیا تھی؟ ابوجہل کا ہاتھ کیوں نہ روکا گیا؟ محض اس لیے کہ حضور  کی طرف سے طاقت کے استعمال کی اجازت نہ تھی.حکم یہ تھا کہ 
کُفُّوۡۤا اَیۡدِیَکُمۡ ’’اپنے ہاتھ روکے رکھو.‘‘ بقول اقبال: ؎

نغمہ ہے بلبل شوریدہ ترا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی!

فی الحال ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں. وقت آنے پر تمہارے ہاتھ کھول دیے جائیں گے. اس مرحلے کے آنے سے پہلے اپنے اندر سرتسلیم خم کرنے کی خوکو پروان چڑھانا ہو گا. 

یہ چار کام وہ ہیں جنہیں علامہ اقبال نے ’’بانشۂ درویشی در ساز ودمادم زن‘‘ میں سمو دیا ہے. ان سے گزرنے کے بعد وہ مرحلہ آئے گا کہ جسے علامہ اقبال نے ’’چوں پختہ شوی خودرا برسلطنت ِجم زن‘‘ سے تعبیر کیا ہے.